مِٹی کے گھروندوں سے سوندھا رومانس ! 52

اسرائیلی بربریت پر عالمی بے حسی شرمناک !

اسرائیلی بربریت پر عالمی بے حسی شرمناک !

غزہ پر اسرائیل کے حملے ایک ماہ سے زائد مدت سے جاری ہیں، روزانہ تین سو کے قریب فلسطینی شہید ہو رہے ہیں،اس جنگ میں اب تک مجموعی طور پر گیارہ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور اس میں نصف تعداد معصوم بچوں کی ہے،اس جاری انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی و اسلامی برادری کو مل کر فوری کوئی عملی ا قدام اٹھانے چاہیے،اقوامتحدہ اور او آئی سی کے اجلاس بلائے جارہے ہیں

اور ان اجلاسوں میں اتفاق رائے کے ساتھ مطالبات تو ضرورپیش کیے جارہے ہیں ،لیکن اسرائیل کے خلاف مشترکہ اقدامات پر اتفاق رائے ہی نہیں ہو پارہا ہے ۔دنیائے عالم کا کر دار فلسطین اور کشمیر پر ہمیشہ سے دوغلانہ ہی رہا ہے،ایک طرف ان معالات کو حل کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں تو دوسری جانب ان کے ہی خلاف اندر خانے حمایت جار ی رکھی جاتی ہے ، اس بار بھی اسرائیلی جارحیت پر ایساہی کچھ رد عمل دیکھنے میں آرہا ہے ،

ایک جانب ا سرائیل اور حماس سے سیز فائر کا مطالبہ کیا جارہا ہے تو دوسری جانب غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے اسرائیل کی پوری عملی مدد کی جارہی ہے ، بلخصوص امریکہ اور برطانیہ کی اسرائیل کی غیر مشروط حمایت نے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ عالمی طاقتوں کا کردار تنازع کو حل کرنے کی بجائے اسرائیل کے مفادات کو محفوظ بنانا ہی رہاہے۔اگر بغور دیکھا جائے تو مغربی ممالک غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھنے پرمکمل طور پر یکسو اور سنجیدہ دکھا دیتے ہیں،

وہ مسلسل اسرائیل کے حق دفاع کی ڈفلی بجاتے ہوئے اسے ہرقسم کی فوجی امداد بھیجے جا رہے ہیں، ان درندہ صفت یہودی صیہونی سے کوئی پوچھے کہ ایک ماہ سے اہل غزہ پر فاسفورس بموں سے شب وروزلگا تار حملے کرتے ہوئے زراہ بھی انسانی حقوق کا خیال نہیں آرہا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق غزہ پر جس قدر بم اور بارود گرایا جا چکاہے، وہ ایٹم بم کے ہی برابرہے، اس کے باوجود ایٹم بم گرانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، اہل غزہ کے پاس بچاہی کیاہے کہ جس پر ایٹم بم گرانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
عالمی دنیا جتنا مرضی دوغلی پا لیسی پر عمل پیراں رہے اور اسرائیل کا ساتھ دیتی رہے ، غزہ پر اسرائیلی بمباری حماس کو خوفزدہ کر سکی نہ ہی ایٹم بم کی دھمکی حماس کے پائے استقلال میں کوئی لغزش لاسکے گی ،لیکن یہ سوال ہر زبان زد عام ہے کہ کیا اپنی سرزمین پر قابض قوت کوللکارنے والوں کو ایسے ہی نیست ونابود ہونا پڑے گااور کیا عالمی دنیا کے ساتھ مسلم دنیا بھی فلسطینیوں کے خون ناحق کو بہتا ہوا دیکھتی رہے گی؟ اگرتمام مسلمان ممالک بھی اسی امر پر متفق ہوچکے ہیں توپھر عرب ممالک بھی نیست ونابودہونے کے لئے اپنی اپنی باری کا انتظار کریں،کیو نکہ وہ خاموش رہ کر زیادہ دیر تک خود کو بچا نہیں پائیں گے ، اگر آج غزہ تو کل اُن کی باری آسکتی ہے ۔
غزہ جل کر خاک ہورہا ہے اور دنیائے اسلام غزہ پرڈھائی جانے والی قیامتوں کو محض داستان سرائی کے طور پر ہی لئے بیٹھی ہے، مسلمان ملک کے سربراہ مملکت کی طرف سے ابھی تک فلسطینی مسلمانوں کیلئے فوجی امداد بھیجے جانے یاپھرکسی ملک کی اسلامی تنظیم کی طرف سے حماس کی عملی مددکیلئے اپنے رضاکاربھیجنے کا کوئی اشارہ ملا ہے نہ ہی اس حوالے سے کوئی باضابطہ اعلان سامنے آرہا ہے، اس طرح سے اسرائیل کے خلاف کمربستہ ہونے کا عزم کیسے باندھا جا سکتا ہے ،دنیائے اسلام پر ایک خاموشی طاری ہے اور یہ مجرمانہ خاموشی اسرائیل اوراس کے سرپرستوں کاحوصلہ بڑھائے چلی جا رہی ہے۔
اسرائیلی بربریت پر جہاں عالمی بے حسی شرمناک ہے ،وہیں دنیائے اسلام کے مسلم رہنمائوں کا زبانی جمع خرچ بھی انتہائی قابل مذمت ہے، اگر یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں میں مزید مایوسی ہی پھیلے گی، لہٰذا ہمارے حکمرانوں کو جتنی اپنی فکر اور اپنی کرسی عزیز ہے، اس کے مقابلے میں دنیائے اسلام کا مفاد عزیز نہیں رہا ہے، مسلم سربراہان کو چاہیئے کہ وہ حسینی فکر و فلسفے اور جرات و بہادری اور حوصلے سے کام لیں اور باطل قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریںاور امریکہ و اسرائیل کے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے فلسطینیوں کا ساتھ دیں

،یہ ساتھ صرف رسمی حد تک نہیں ہونا چاہئے ،بلکہ اظہار یکجہتی سے آگے بڑھتے ہوئے اپنا سارا اثر ورسوخ انسانی وعلاقائی مسئلے کے حل پر مرکوز کر دینا چاہئے ، کیو نکہ مسئلہ فلسطین ہی مشرق و سطیٰ کے پائیدار امن کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے ،یہ مسئلہ جب تک باہمی مشاورت سے حل نہیں ہو گا ، قیام امن کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں