قتل فلسطین اصل میں مرگ یہود ہے 46

بی جے پی ہر ہارنے والے انتخاب کو، کیسے جیت پاتی ہے؟

بی جے پی ہر ہارنے والے انتخاب کو، کیسے جیت پاتی ہے؟

نقاش نائطی
۔ +966562677707

بی جے پی ہر ناممکن انتخاب کیسے جیت پاتی ہے۔ 2022 کے یوپی انتخاب کسی بھی صورت یوگی کے جیتنے کا چانسز نہ تھے۔ مودی یوگی کے اختلافات اور بی جے پی ریاستی لیڈروں کے درمیان اختلافات عروج پر تھے پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ یوگی مہارج انتخابی دنگل ہوتی اکثریت سے جیت اور اس جیت کا سہرا مسلم ووٹروں کے یوگی کی طرف جھکنے سے بتایا گیا۔ کیا واقعی مسلم ووٹ یوگی کے ساتھ ہوگئے تھے

یا ای وی چھیڑ چھاڑ یوگی کی جیت کو درست ٹہرانے کے لئے مسلم ووٹروں کا ساتھ بتایا گیا تھا۔ اس کی قلعی اعظم گڑھ کے وسط مدتی چناؤ میں مسلم اکثریتی ووٹ ای وی ایم چھیڑ چھاڑ، بی جے پی کے حق میں کرتے ہوئے، ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ جبکہ مسلم حلقوں کی اکثریت نے بی جے پی کے خلاف ووٹ دئیے تھے۔ کیسے بی جے پی، ای وی ایم چھاڑ ھذب اختلاف کے دس پندرہ فیصد ووٹ اپنے پالے میں کرتے ہوئے، انتخاب جیت پاتی ہے اس کی تفصیل اس آدمی کے دئیے آنکڑوں سے سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔

پہلے اس غیر ترقی یافتہ دور میں بیلٹ پیپرز انتخاب بعد دوسرے یا تیسرے ہی دن دستی ووٹ گنتے ہوئے ہار جیت نتائج اعلان کئےجاتےتھے۔ جبکہ آج کے ترقی پذیر جدت پسند دور میں، بعد انتخاب، ای وی ایم بٹنوں کو دبا گھنٹوں کے اندر نتائج اعلان کئے جاسکتے ہیں، ایسے میں اندھیر نگری چوپٹ راج، انتخاب کے دس بارہ دنوں بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات نتائج کا اعلان کیا جانا، کیا ای وی ایم چھیڑ چھاڑ کر، اقتدار پر قابض سیاسی پارٹی کے حق میں انتخابی نتائج بدلنے کی الیکشن کمیشن کی کوشش کے طور اسے نہیں لیا جانا چاہئیے؟ جس جس انتخاب بعد ایک دوں دن کے اندر ہی نتائج کا اعلان کیا گیا ہے

ان انتخابات میں کانگریس پارٹی جیتتی پائی جاتی پے اور بعد انتخاب دس بارہ دنوں بعد اعلان ہونے والے انتخابی نتائج،بی جی پی غیر متوقع طور جیتتی پائی جاتی ہے۔تعجب ہوتا ہے ایسے ای وی ایم چھیڑ چھاڑ غیر متوقع طور انتخابی دنگل جیتتے پس منظر میں، کانگریس سمیت تمام تر سیاسی پارٹیاں، اس ای وی ایم چھاڑ غلط نتائج کو، کیوں کو تسلیم کرلیتی ہیں؟ایسی صورت حال میں، 2014 عام انتخاب بھی کسی بھی صورت بی جے پی جیت ہی لے گی تو پھر انتخابی ناٹک پر 140 کروڑ دئش واسیوں کے ٹیکس پیسوں کا ضیاع کیوں کیا جاتا ہے؟

اور انتخاب جیتنے کانگریس سمیت دیگر سیاسی پارٹیاں ہزاروں کروڑ انتخابی دنگل میں کیوں ضائع کرتی پائی جاتی ہیں؟ ای وی ایم چھیڑ سے پہلے سے سیٹ کئے اس انتخابی دلدل میں حصہ لیتے ہوئے ہزاروں کروڑ نقصان کے باوجود،سوا سو سالہ آل انڈیا کانگریس پارٹی، اپنا امیج کیوں خراب کرتی پائی جاتی ہے۔ اس سے اچھا ہے کہ کانگریس سمیت تمام سیاسی پارٹیاں ای وی ایم طرز انتخاب کے خلاف صف بند ہوجائیں اور انتخاب ہی کا مقاطعہ کریں۔
ایک یا چند ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ایک ہی دن منعقد کرتے دوسرے ہی دن نتائج اعلان کرنے میں ناکام بی جے پی،پھر کیوں اور کیسے سابق صدر ھند رام ناتھ گوینک کی لیڈرشپ میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے 140 کروڑ عوام کا اسمبلی و پارلیمنٹ دونوں انتخاب “ون نیشن ون الیکشن” دل لبھاونے نعرے کے ساتھ کرنے کا کیسے سوچ رہی ہے؟
ہمیں تو لگتا ہے کہ بغیر ای وی ایم بیلٹ پیپر طرز ہی انتخاب کیا جانا چاہئیے۔ اگر اس سائینسی ترقی پزیر جدت پسند دور میں بھی، کمپیوٹر والے ای وی ایم انتخاب کو نکارا جانا ممکن نہ ہو تو ۔ بعض جدت پسند اصلاحات کے ساتھ انتخابات آی وی ایم کے ذریعے کئے جاسکتے ہیں۔
نمبر 1) انتخاب بعد فوری طور ہر بوتھ حلقہ کے ای وی ایم کو سینٹرل ماسٹر کمپیوٹر لنک سے جوڑتے ہوئے،

اسی وقت اس بوتھ کے نتائج کا اعلان کیا جانا چاہئیے۔ اس سے ایک طرف اس حلقہ کے ووٹروں کو اپنے علاقے سے، کس امیدوار کو کتنے کتنے ووٹ پڑے ہیں اندازہ بھی ہوجائیگا اور سینٹرل ماسٹر کمپیوٹر سے لنک رہنے کی وجہ تمام حلقوں سے نتائج سینٹرل ماسٹر کمپیوٹر میں جمع ہوتے ہوئے، بعد انتخاب کچھ ہی گھنٹوں میں نتائج بھی عوام کے سامنے آجائیں ۔اور کچھ اس طرح صحیح معنوں عوامی منتخب نمائندے ہی عوام پر حکومت کرنے لائق رہینگے۔
2) اگر یہ طرئق انتخابی نتائج اعلان مناسب نہ ہو تو۔ ہر اسمبلی و ایم پی حلقہ کے تمام انتخابات ایک ہی دن منعقد کئے جائیں اور ہر انتخابی حلقہ کے تمام تر ای وی ایم ایک جگہ جمع کرتے ہوئے، دوسرے ہی دن نتائج کا اعلان کیا جائے

تاکہ ای وی ایم چھاڑ کرنے والوں کو، ای وی ایم چھیڑ چھاڑ کا موقع ہی نہ ملے۔ پورے ملک کے سینٹرل و اسٹیٹ انتخابات ون نیشن ون الیکشن کرنے کی کوشش کرنے والے،کیوں کر ایک ریاست کے اسمبلی انتخاب ایک ہی دن منعقد نہیں کرسکتے ہیں؟
3) بعد انتخابی نتائج عوامی ووٹوں سے جیتے ہوئے، ایم ایل ایم پی کو اپنے ووٹروں کی مرضی و منشاء کے خلاف دوسری سیاسی پارٹی کے حق میں تائید کرنے کا موقع ہی انہیں نہ دیا جائے۔ چاہے کسی پارٹی کے ایک تہائی یا دوتہائی منتخب نمائندے ہی، اپنے سیاسی پارٹی، کسی فیصلے سے اختلاف کیوں نہ رکھتے ہوں۔ ایک سیاسی پارٹی کی تائید اور اس پارٹی کے انتخابی ٹکٹ پر انتخاب جیتنے کا مطلب پورے پانچ سال اس سیاسی پارٹی سے وفاداری مشروط رکھی جانی چاہئے۔اگر کوئی درمیان میں اپنے حلقہ کی ووٹروں کی اجتماعی منشاء کے خلاف، دوسری سیاسی پارٹی میں جاتا ہے تو کم از دو سے تین میعاد کے لئے انتخاب حصہ لینے سے، اسے مانع رکھنا چاہئیے۔ اس سے اپنے فائیدے کے لئے اپنے عام ووٹروں کو دھوکہ دیتے عام بھارت واسیوں کے ووٹوں کی قدر و قیمت ختم کرنے والوں کی ہمت پست ہونگی آور منتخب ایم ایل ایز اور ایم پیز کی ہارس ٹرنڈنگ پر لگام بھی لگائی جاسکے گی۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں