خونی رشتہ،الفت محبت ہمدردی کا منعکس ہوتا ہے 84

خونی رشتہ،الفت محبت ہمدردی کا منعکس ہوتا ہے

خونی رشتہ،الفت محبت ہمدردی کا منعکس ہوتا ہے

نقاش نائطی
۔ +966562677707

جڑواں بچے جو اپنی ماں کے پیٹ میں پورے آٹھ نو ماہ تک پل رہے ہوتے ہیں، یقیناً قدرت کی طرف سے ان کے درمیان آپس میں، ایسا تعلق خاص ہوتا ہے، جسے معاشرہ ہی کیوں؟ سائینسی ارتقاء بھی سمجھنے سے قاصر ہوا کرتا ہے۔ 17 اکتوبر 1995 امریکہ کے ایک ہاسپٹل میں ایک حاملہ کو لایا جاتا ہے۔

مقررہ وقت سے 12 ہفتے پہلے،آپریشن کے ذریعہ 2 جڑواں بہنیں کیری اور بریل جیکسن کی ولادت ہوتی ہے۔انہیں انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے کے لیے،الگ الگ انکیوبیٹرز میں رکھاگیا تھا۔ کیری، جس کا وزن 2 پاؤنڈ 3 اؤنس تھا، صحت یاب ہورہی تھی اور وزن بڑھ رہا تھا، لیکن اس کی چھوٹی بہن بریل کو سانس لینے اور دل کی دھڑکن کی دشواری تھی، وزن میں بہت کم اضافہ ہوا تھا اور اس کی آکسیجن کی سطح کم تھی

۔ پیدا ہوئے 25 دن بعد 12 نومبر کو ننھی بریل کی حالت تشویش ناک ہوگئی۔ سانس کے لیے ہانپتے ہوئے اس کے پتلے بازو اور ٹانگیں نیلے سرمئی ہو گئیں۔ اس کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ جیکسن کے والدین نے دیکھا، ان کی چھوٹی بیٹی مر سکتی ہے۔ بچوں کے امراض کے ڈاکٹرز پوری توجہ کے ساتھ بریل کو شفایاب کرنے کی جستجو کررہے تھے۔کہا جاتا ہے کہ مایوسی کے لمحات ہی، مایوس کن اقدامات کے متقاضی ہوتے ہیں۔

نرس گیل کاسپرین، جو خود بھی اپنے جڑواں بھائی کے ساتھ پیدا ہوئی بہن تھی، اپنے جڑواں بھائی کے ساتھ، اسکے اپنے دلی لگاؤ کا، اسے احساس تھا۔ اس لئے اس نے تمام روایتی علاج کرچکنے کے بعد، بریل کی زندگی سے مایوس ہوئے، ایک ایسا طریقہ کار آزمانے کا فیصلہ کیا جو میڈیکل سائینس کے خلاف تھا۔والدین کی اجازت لئے، اس نے جڑواں بچوں کو ایک ہی انکیوبیٹر میں منتقل کر دیا۔ اور جیسے ہی اس نے انکیوبیٹر کا دروازہ بند کیا تھا، کیری نے اپنا ننھا ہاتھ آگے بڑھاکر، بریل کے سن ہوتے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ لیا

۔ اسی لمحے بچوں کی امراض ماہر ڈاکٹر بچوں کے معائنہ کے لئے، کمرے میں داخل ہوئی اور دونوں بچوں کو، ایک ہی انکیوبیٹر میں دیکھا تو نرس پر برس پڑیں کہ اس کی اجازت کے بغیر، میڈیکل ایتھکسٹ کے خلاف، اس نے اتنا بڑا فیصلہ کیوں کیا؟ نرس اپنی صفائی میں کچھ کہہ پاتی ، اسی وقت دونوں کی نظریں مشین پر دوڑتی آڑی ترچھی ابھرتی لکیروں سے،تقریباً دم توڑتی بریل کی شفایابی کی نوید نؤ نے، انہیں متحیر کردیا۔بریل کی ڈوبتی نبض میں ٹہراؤ آچکا تھا گویا وہ اپنی جڑواں بہن کا لمس پاتے ہوئے،پرسکون ہونے لگی تھی۔

چند ہی منٹوں میں، اس کے خون میں آکسیجن کی ریڈنگ بہتر ہونے لگی تھی۔ جیسے اسے نیند آرہی ہو، تبھی ننھی کیری نے، اپنا بایاں بازو اپنی چھوٹی بہن بریل کے اوپر ڈال کر،گویا اس سے بغل گیر ہونے کی سعی کرلی تھی۔بریل کے دل کی دھڑکن مستحکم ہونے لگی اور اس کا درجہ حرارت معمول پر آگیا۔ اسکے بعد بریل کی سدھرتی صحت کے پیش نظر،کیری کو بریل ہی کے انکیوبیٹر میں رکھا جانے لگا۔

کیری ہمہ وقت، اپنی بہن بریل کے ہاتھوں کو تھامے رہتی۔ ایک ہفتہ میں، بریل کی حالت میں مسلسل بہتری آئی۔ ایک مقامی اخبار کے ایک فوٹوگرافر نے،انکیوبیٹر ہی کے اندر ،جڑواں بہنوں کے بغلگیر ہوتے ایک بہت ہی خاص لمحے کو، اپنے کیمرے میں جو قید کرلیا تھا۔ یہ ایک ایسی تصویر تھی جو آنے والے برسوں تک مشہور رہے گی۔یہ تصویر بعد میں انٹرنیٹ پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی اور ان ایام لائف اینڈ ریڈرز ڈائجسٹ کے سرورق پر بھی طبع ہوچکی تھی۔ امریکہ میں یہ پہلا موقع تھا جب ہسپتال نے اس طرح کی غیر روایتی کوشش کی تھی اور نرس گیل کاسپرین کی ذہانت والی دلیرانہ کوشش کی تعریف کی گئی تھی جس کی وجہ سے بچی کی جان بچ گئی۔ یقیناً جڑواں بچوں کو الگ نہیں کرنا چاہیے،

اس واقعہ نے جڑواں بچوں کی پیدائش کے بارے میں ہسپتالوں کے رہنما خطوط کو تبدیل کر دیا تھا اور بعد کے طبی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ جڑواں بچوں کو ایک ہی بستر پر رکھنے سے، شفایابی کے واضح فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس سے دم توڑتی بریل کی جان بچانے میں مدد جو ملی تھی بلکہ اس کے بعد، قبل از وقت پیدا ہوئے، جڑواں بچوں کے علاج کے طریقے کو ہی بدل دیا تھا۔
تصور کریں کہ اگر نرس گیل کاسپرین نے ایسا کرنے کی کوشش نہ کی ہوتی؟ بریل شاید آج زندہ نہ ہوتی۔ ہمیں وقت کے لحاظ سے،بھلائی ہی کے لئے، غیر متوقع فیصلے کرتے ہوئے، کسی بھی عمل کو کرکےدیکھنے یا جانچنے کی ہمت کرنی چاہیے اور ناقابل تصور پر یقین کرنا چاہیے!

جڑواں بچوں کے درمیان قدرتی لگاؤ ہوا کرتا ہے
نومولود بچوں میں موجود قدرتی تعلق خاص، بصورت سقم ایک دوسرے کو شفایاب ہونے ممد ہوا کرتا ہے۔ ابن بھٹکلی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں