55

وقت ہاتھ سے نکلا جارہا ہے !

وقت ہاتھ سے نکلا جارہا ہے !

ملک بھر میں ایک ہفتے بعد عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ متعین ہے ،لیکن اس انتخابات میںجمہوریت کے تقاضے پورے کیے جارہے ہیں نہ ہی جمہور کو آزادانہ حق رائے دہی دیا جارہا ہے، اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہر شخص متفق ہے کہ انتخابات سے پہلے ہی انتخابی نتائج بند کمروں میں طے کرلیے گئے ہیں، یہ عمل ماضی میں ہوتا رہا ہے اور اس باربھی ہورہا ہے، اس لیے عام انتخابات سیاست میں استحکام لانے کے بجائے مزیدبحران وفساد ہی لاتے دکھائی دیے رہے ہیں۔
یہ کتنی عجب بات ہے

کہ انتخابات سے پہلے ہی انتخابی ماحول ساز گار بنانے کے بجائے مزید خراب کیا جارہا ہے ،ایک طرف مسلم لیگ( ن)اور پیپلز پارٹی کیلئے میدان صاف کیا جارہا ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کردی گئی ہے،یہ کیسے منصفانہ انتخابات ہورہے ہیں اور اس انتخابی عمل کی کیا ساکھ ہو گی کہ انتخابات سے ایک ہفتہ قبل ہی ایک پارٹی کے مقبول لیڈر اور سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سرکاری راز افشا کرنے کے الزام میںدس برس قید کی سزا سنادی گئی ہے،

اس فیصلے کے 24 گھنٹوں کے بعد ہی ایک اورمقدمے میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو بارہ برس کی سزا دے دی گئی ہے۔یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ ایسے مقدمات پہلی بار بنائے گئے ہیں نہ ہی ایسی سزائیں پہلی بار دی جارہی ہیں ، یہ انتقامی سیاست کی رویت ہر دور میں ہی دہرائی جاتی رہی ہے اور اس بار بھی دہرائی جارہی ہے، اس سے پہلے کبھی کچھ حاصل ہوا ہے نہ ہی اب کوئی کچھ حاصل ہو پائے گا

، گزرتے وقت کے ساتھ جیسے پہلے مقدمات اورسزائیں ختم ہوئی تھیں ،یہ مقدمات اور سزائیں بھی ختم کردی جائیں گی ، لیکن اس میں ہر ایک کا کردار جیسے پہلے سب کے سامنے آتا رہا ہے ، اس بار کچھ زیادہ ہی واضح طور پر سامنے آرہا ہے اور عام عوام کو بھی پتہ چل رہا ہے کہ اس سب کے پیچھے کون کار فرما رہے اور وہ ایسا کیوں کررہے ہیں؟
تحریک انصاف قیادت کے خلاف خصوصی عدالتوں کے ذریعے جس انداز سے فیصلے سامنے آرہے ہیں،اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ یہ فیصلے کہیں سے لکھے لکھائے ہی آرہے ہیں،انہیں صرف سنا یا ہی جارہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ کہیں سے مداخلت ہورہی ہے ،اس مداخلت کے نہ کرنے کا ہی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ آئندہ نہیں ہو گی ، اس یقین دہانی کا ہی خیر مقدم کیا گیا تھاکہ آئندہ انتخابات میں عوام کو اپنی رائے استعمال کرنے اور عوامی طاقت سے ہی حکومت کے بننے اور معزول ہونے کا اختیار دے دیا جائے گا، اگر ایک بار پھر پس پردہ ایوانوں میں فیصلے کیے جائیں گے اور انہیں قوم پر مسلط کیا جائے گا تو سیاسی بحران کی نوعیت اور کردار ضرور بدلیں گے، لیکن بحرانوں کا خاتمہ کبھی نہیں ہو پائے گا۔
اس ملک میں بحران در بحران کی ایک ہی وجہ ہے کہ آزادانہ منصفانہ انتخابات کرائے جاتے ہیں نہ ہی انتخابی عمل سے آنے والی حکومت کو آزادانہ اپنے فیصلے کر نے کا اختیار دیا جاتا ہے،یہاں ہر دور اقتدار میںلوگ طاقتور حلقوں کی ہی بدولت آتے ر ہے ہیں اور اُن کی ہی مرضی سے جاتے رہے ہیں، اگر شفاف انتخابی عمل سے منتخب حکومتیں بنائی جاتیں اور انہیں چلنے دیا جاتا تو جمہوریت مضبوط ہو نے کے ساتھ ملک میں خوشحالی کا بھی دور دورا ہوتا ،لیکن ایسا نہیں کیا گیا، عام عوام کو آزادانہ حق رائے دہی دیا گیا نہ ہی اقتدار میں آنے والوں کو کبھی اختیار دیا جارہاہے ، بلکہ ترازو کے دونوںپلڑے برابر کرنے کے چکر میں سب کو ہی بے وقوف بنایا جارہا ہے،یہ اس کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک نہ صرف سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار ہورہا ہے ،بلکہ ایک بڑے انتشار کی جانب بھی بڑھتا چلا جارہا ہے۔
اس انتشار سے کی کیفیت سے ملک کو نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ عوام کو نہ صرف آزادانہ فیصلہ کر نے کا اختیار دیا جائے ،بلکہ اُن کا فیصلہ مانا بھی جائے ، لیکن یہ سب کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،یہ ہی وجہ ہے کہ الیکشن سر پہ ہے، مگر عوام سیاسی نعروں کو پذیرائی دے رہے ہیںنہ ہی آزمائی قیادت پر یقین کررہے ہیں، سیاسی لیڈران گلہ پھاڑ پھاڑ کر خوشحالی کے نعرے لگا رہے ہیں ، روٹی کپڑا مکا ن دینے کے دعوئے کررہے ہیں، مگرایسا لگتا ہے کہ عوام ان سے مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں، عوام جان چکے ہیں کہ سیاسی قیادت جن کے ایجنڈے پر آتے ہیں ، انہیں کے ہی ایجنڈے کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں، یہ سب اندر سے ایک ہیں اور مل جل کر کھاتے ہیں،اس میں کچھ کم کھاتے ہیںاور کچھ زیادہ کھارہے ہیں،مگر سبھی کھارہے ہیں،جبکہ عوام بھوکے مر ے جارہے ہیں۔
خدارا فیصلہ سازکچھ تو ہوش کے ناخن لیںاور عام عوام کا بھی کچھ خیال کریں ،یہ پچیس کروڑ عوام ہیںکوئی بھیڑ بکریاں نہیں ہیں، یہ جیتے جاگتے اِ نسان ہیں،یہ دیکھ سکتے ہیں ، بول سکتے ہیں، مگر اِنہیں دیکھنے دیا جارہا ہے نہ ہی بولنے نہیں دیا جارہاہے ، ان کی آواز کو دبایا جارہا ہے،لیکن اس اُٹھتی آواز کو زیادہ دیر تک زور زبر دستی دبایا نہیں جاسکے گا، ابھی وقت ہے کہ اِن کے سوکھے ہونٹوں پہ مسکراہٹ لائی جائے،ا ن کے چہروں پہ شادمانی لائی جائے ، وقت تیزی سے نکلا جارہا ہے، اگریہ وقت بھی ہاتھ سے نکل گیا تو اقتدار کی ڈور مقتدر حلقوں کے ہاتھ سے بھی نکل جائے گی اورایسا لگ رہا ہے کہ وہ وقت زیادہ دور نہیںہے کہ جب مظلوم کے ہاتھ میں ظالم کے گریباں ہوں گے اور کوئی چھوڑا بھی نہیں پائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں