ووٹ کو عزت دیناہو گی ! 54

ووٹ کو عزت دیناہو گی !

ووٹ کو عزت دیناہو گی !

ملک بھر میںعام انتخابات کا مرحلہ بڑی حد تک بخیر و خوبی تکمیل کو پہنچ گیا ہے،اس انتخابات میں عوام نکلے اور بہت خوب نکلے ، انہوں نے نہ صرف اپنی حق رائے دہی کا بھر پور استعمال کیا ، بلکہ اپنے ووٹ کا پہرا بھی دیا ہے ، اس باوجود عوام کی اکثریتی رائے کو جیسے تبدیل کیا گیا ہے ،اس پرعوام شدید مشتعل اور مایوسی کا شکار دکھائی دیتی ہے اور سوال کر رہی ہے کہ اگر اسی طرح ہی جبراً قوم پر اپنے مہروں کو مسلط کرنا تھا تو انتخابات کا یہ ڈھونگ رچانے، ملک و قوم کے کھربوں روپے اور قیمتی وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
اگر دیکھاجائے تو یہ پہلے انتخابات ہیں ،جو کہ اپنے انعقاد سے قبل ہی متنازع ہو گئے تھے ،رہی سہی کسر اب متنازع نتائج نے پوری کر دی ہے ،اس پر ملک کے اندر اور باہر سے اپنی اپنی رائے کا اظہار بھی کیا جارہا ہے ، الجزیرہ نے انتخابات کی جائزیت پر ہی سوالات اٹھادیئے ہیں،جبکہ بلومبرگ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نوجوان انتخابی نظام سے ہی مایوس ہیں،کونسل آن فارن ریلیشنز کا کہنا ہے

کہ یہ انتخابات منصفانہ ہیں نہ ہی آزادانہ ہیں، فنانشل ٹائمز کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوتے تو عمران خان واضح اکثریت حاصل کرتے اور حکومت بناتے، جبکہ بی بی سی کا کہناہے کہ ایسا لگتا ہے کہ تحریک ا نصاف قیادت کو موثر طریقے سے بے اثر کر دیا گیا ہے ،دی گارڈین نے نوٹ کیا ہے کہ مقتدر حلقوں نے نہ صرف آزمائے پر اعتماد کیا ، بلکہ انتخابات سے پہلے ہی انتخابی نتائج کا فیصلہ کر دیا گیا تھا۔
اس انتخابات اور اس کے نتائج پر ہونے والی تنقید کو دیکھتے ہوئے اس سے بچنا، یا سب ٹھیک ہونے کی تصویر پیش کرنا کم و بیش ناممکن ہے،ظاہر ہے کہ سب کچھ درست تھا نہ درست کرنے کا ارادہ تھانہ ہی کچھ درست کیا جارہا ہے ، بلکہ مز ید بگاڑ ہی پیدا کیا جارہا ہے ، ایک طرف تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار فارم 45 لیے پھر تے ہیں کہ جس میں گنتی سے وہ جیت رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے ہارے اُمیدوار جیت کے نئے45 فارم کے ساتھ جشن منارہے ہیں،

یہ کیسے شفاف انتخابات کے شفاف نتائج ہیں کہ جس میں ہارنے والے کو جیت کا 45 فارم دیا جارہا ہے ،جبکہ ہارنے والے کے پاس بھی اپنی جیت کا 45 فارم مو جود ہے ۔یہ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج ظاہر کر رہے ہیں کہ 2024ء کے انتخابات کے بعد بھی ملک میں مضبوط و مستحکم سیاسی حکومت قائم ہو سکے گی نہ جمہوری اداروں کو استحکام حاصل ہو سکے گا ،اس کے برعکس حالیہ انتخابات کے بعد بھی اشرافیہ کو اپنے مخصوص مقاصد کے حصول اور مفادات کے تحفظ کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے حکومتیں بنانے اور بگاڑنے کا پرانا کھیل جاری رکھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی

،شاید اس لیے ہی ملک کے اہم حلقوں میں اپنے پرانے آزمود مہروں کو دھونس اور دھاندلی کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے قوم پر مسلط کیا جا رہا ہے، تاہم ارباب اختیار اور مقتدر حلقوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ قوم اب مزید ایسی صورت حال قبول کرنے پر آمادہ ہے نہ ہی یہ سب کچھ خاموشی سے بر داشت کرے گی ۔
پا کستانی عوام باشعور ہو چکے ہیں اور جوکچھ ہورہا ہے ،اس بارے سب کچھ جانتے ہیں، اس لیے بہتر ہو گا کہ عوام کو ’تنگ آمد بجنگ آمد‘پر مجبور کیا جائے نہ ہی آزمائے کو دوبارہ مسلط کیا جائے،بلکہ قوم کے حقیقی مینڈیٹ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے مثبت طرز عمل اختیار کیا جائے اور با اختیار سیاسی حکومت کے قیام میں روڑے اٹکانے کی بجائے اسے مستحکم اور مضبوط بنانے میں تعاون کیا جائے،

تاکہ ہمارے جمہوری اور سیاسی نظام کا عالمی سطح پر مذاق اڑانے کا سلسلہ جہاں ختم ہو ،وہیں نئی منتخب حکومت پورے اعتماد اور یکسوئی کے ساتھ ملک و قوم کے مفاد میں آئین وقانون کے مطابق سیاسی عمل کو آگے بڑھا سکے اور ملک میں جمہوری اداروں کی بالادستی کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو سکے،لیکن یہ سب کچھ تبھی ممکن ہو پائے گاکہ جب عوام کی رائے کا احترام کیا جائے گا اورعوام کے ہی فیصلے کو مانا بھی جائے گا۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ اس ملک میںووٹ کو عزت دو کے بیانیہ والوں نے ہی کبھی ووٹ کو عزت نہیں دلوائی ہے، یہاں جس کی لاٹھی، اْس کی ہی بھینس والا معاملہ ہی رہا ہے، یہاںجو طاقتور ہے اور جس کے سر پر طاقتور حلقوں کا ہاتھ ہے وہ ہی سب کچھ لے جاتا ہے، لیکن یہ سب کچھ اب چلنے والا ہے نہ ہی نئی نسل ایساکچھ چلنے دیے گی ، نئی نسل مصلحت پسند ہے نہ ہی جبرو زیادتی، ناانصافی بر داشت کرتی ہے ،

وہ ہر نا انصافی پر نہ صرف آواز اُٹھا تی ہے، بلکہ اس کے خلاف جد وجہد بھی کرتی ہے ، اس نئی نسل کو چھوٹے وعدئوں اور چھوٹے دعوئوں سے مزید بہلایا جاسکتا ہے نہ ہی بہکایا جاسکتا ہے ، اس لیے اب پرانے بیانیہ اور پرانے نعروں سے کام نہیں چلے گا ، اب ووٹ کو حقیقی عزت دینا ہی ہو گی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں