سیاسی اتحاد نا گزیر ہے ! 50

کوئی دوسرا راستہ نہیں !

کوئی دوسرا راستہ نہیں !

پاکستانی سیاست میں ایک کام بہت ہورہاہے اور آج کل تواتر سے ہی ہورہا ہے کہ ہر چھوٹی بڑی بات پرعالمی داروں سے رابطے کیے جاتے ہیں،تحریک انصاف قیادت نے جس روز سے آئی ایم ایف سے پاکستان میں دھاندلی کی شکایات کے حوالے سے رابطہ کرنے کا بیان دیا ہے، اس روز سے ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) والے بھی عمران خان کے خلاف سخت بیانات دے رہے ہیں،اس خط کے حوالے سے کچھ لوگوں کا خیال ہے

کہ اگر آئی ایم ایف نے انتخابا ت آدٹ کرانے کی شرط عائد کردی تو نئی حکومت ملک کو دیوالیہ کرا دے گی ،مگر یہ شرط کبھی نہیں مانے گی ،کیونکہ اس شرط کے ماننے سے حکومت کے اپنے گر جانے کا اندیشہ ہے ،یعنی انہیں پتہ ہے کہ عوام نے انہیں حکومت کرنے کا حق نہیں دیاہے ، یہ حق کہیں اورسے ہی حاصل کیا گیاہے۔
یہ بات کب تک چھپائی جاتی رہے گی اور یہ کب تک سمجھا جاتا رہے گا کہ عوام کو کچھ معلوم نہیں اور عوام کچھ نہیں جانتے ہیں ، عوام سب کچھ جانتے ہیں اور سمجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں ، عوام جا نتے ہیں کہ پہلے سے ہی فیصلے بند کمروں میں کر لیے گئے تھے ، اس انتخابات کے نام پر عوام کو نہ صرف بے وقوف بنایا گیا ہے ، بلکہ عوام کا پیسہ بھی ضائع کیا گیا ہے ، اس پر عوام احتجاج نہ کرے تو کیا کرے ،

عوام کے ہی مسترد کردہ لوگ عوام پر مسلط کیے جارہے ہیںاور کہا جارہا ہے کہ خاموشی رہیں ، عوام خا موش نہیں رہیں گے ،عوام کو جہاں موقع مل رہا ہے ،اپنی آواز اُٹھا رہے ہیںاور بتا رہے ہیں کہ اُن کی مرضی کے خلاف فیصلے کیے جارہے ہیں ۔اس اعتبار سے کہنا بجاہے کہ پاکستان کے سیاسی معاملات پر غیر ملکی اداروں سے رابطہ کرنا مناسب نہیںہے، لیکن یہ باتیں ایسے لوگ کررہے ہیں، جو کہ خود منہ بھر بھر کر پاکستانی سیاست کے بارے میں امریکا برطانیہ جا کر الٹیاں کرتے رہے ہیں،

یہ مسئلہ صرف عمران خان کا آئی ایم ایف سے دھاندلی کی شکایت کرنے کا نہیں ہے، اگر لوگ اپنی یادشت پر زور دیں تو انہیں یاد آجائے گا کہ بے نظیر جنرل ضیا اور بعد میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف امریکا و یورپ میں تقریریں کرتی رہی ہیں اور پاکستان کی امداد بند کرنے کے مطالبات کرتی رہی ہیں ،مسلم لیگ (ن) والے بھی اپنی حکومت جانے کے بعد ساری دنیا میں پاکستانی حکومت کے خلاف باتیں کرتے پھر تے تھے، آصف علی زداری کا اپنے اداروں کے خلاف امریکہ سے مدد مانگنا لوگ بھولے نہیں ہیں ،لیکن یہ تضاد پاکستان کے تمام ہی حکمران سیاستدانوں میں رہا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کے لیے ہر اصول قربان کردیتے ہیں۔
اہل سیاست کو اب اپنے روئیوں میں تبدیلی لانا ہو گی ،یہ ملک ہم سب کا ہے ، اس ملک سے ہی ہم سب ہیں ،یہ ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں رہے گا،اس لیے سیاسی عقل مندی اسی میںہے کہ اپنے سیاسی اختلافات کو ملکی ہتک کا سبب نہ بننے دیں ،اگر چہ اس کا امکان نہیں ، تاہم فرض کریں کہ اگر ایسا ہوبھی جائے کہ کسی سیاسی جماعت کی شکایت پر آئی ایم ایف کے معاشی لین دین کے فیصلے اثر انداز ہو ئے

اور وہ قرض معاہدہ جو کہ اس وقت ایک اہم معاشی ضرورت ہے ،کسی وجہ سے معرض التوا میں پڑ جائے تو اس میں نقصان کس کا ہو گا ؟اس کے اثرات ملکی معیشت کیلئے ناقابل بر داشت ہوںگے اور اس کا اثر ملک و قوم پر ہی ہوگا ،اس لیے یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ قومی معاملات کو اس طرح متنازع بنانے کے مضمرات قومی مفادات کے منافع ہیں، لہذا اس معاملے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے ۔
اس میںکوئی دورائے نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کو انتخابات میں قابل ذکر مینڈیٹ ملا ہے ،لیکن اس جماعت کی ذمہ داری ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا پاس رکھے اور اپنے حق کے حصول کیلئے احتجاج کے ساتھ اپنا پارلیمانی فریضہ بھی سر انجام دے ، سیاسی دھنگا مشتی کے چلن سے پچھلے دو برس میں کچھ حاصل ہو پایا ہے نہ ہی آئندہ کچھ حاصل ہو پائے گا ،اس لیے ضروری ہے کہ پار لیمانی فورمز پر ہی بھروسا کیا جائے

، اس میں ہی ملک وقوم اور سیاسی جماعتوں کیلئے بھی فائدہ ہے ،اگرچہ مو جودہ سیاسی حالات میں ایسا کرنا مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں ، ہمیں ذاتیات سے نکل کر قومی مفاد میںملک کی بہتری کیلئے مل جل کر ہی کام کرنا ہو گا، اگر پاکستانیوں نے ایک قوم کی طرح اْبھر کر سامنے آنا ہے تو اس کیلئے سیاسی جماعتوں کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہی پڑے گا،اس کے علاو بہتری کاکوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں