110

بے اصولی تجھے سات سلام

بے اصولی تجھے سات سلام

جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی

کئی مہینوںکی ہائے ہو کے بعد پاکستان میں الیکشن الیکشن کا کھیل اپنے اختتام کو پہنچا کچھ دنوںرسہ کشی کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ بھی مکمل ہوگیا اس الیکشن کی خاص بات یہ تھی جتنے اور ہارنے والے اب تلک یقین و بے یقینی کے ماحول میں ہیں آج جیتنے والا ہوسکتاہے کچھ روز بعد ہرادیاجائے حتمی طورپرکچھ نہیں کہاجاسکتا کیونکہ لندن پلٹ وزارت ِ عظمیٰ کے امیدوار میاں نوازشریف جوسیاست سے عمران خان کو مائنس کرنے کی خواہش رکھتے تھے خود بلکہ بذات ِ خود بھی مائنس ہوگئے

اس الیکشن کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ ا پنے حضرت مولانافضل الرحمن مکمل طور پر خسارے میں رہے دونوں بڑی جماعتوںنے انہیں اپنے سیاسی مفادات میں اس اندازسے استعمال کیا کہ حضرت ابھی تک سکتے کے عالم میں ہیں کہ میرے ساتھ یہ ہواکیا ہے؟ اب موصوف’’ یہودی ایجنٹ ‘‘ کے پیادوں سے ملاقاتیں کرکے دل کی بھڑاس نکالتے پھررہے ہیں اور مسلم لیگ ن کی سیاست کے کیا کہنے کہ شہباز شریف جس شخص کو وہ سڑکوںپر گھسیٹناچاہتے تھے اب اسی کی آشیربادسے وزیر ِ اعظم بن کر اتراتے پھرتے ہیں

یہ ہوتی ہے سیاست۔۔ یہ ہوتاہے ایک لیڈرکا ویژن یعنی بے اصولی تجھے سات سلام جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ عام انتخابات میں عوام نے صرف تحریک ِ انصاف کو ہیوی مینڈیٹ دیاہے دنیا کی تاریخ میں کہیں اورکبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک جماعت کو ریاستی جبرسے ختم کردیا جائے اس سے انتخابی نشان تک چھین کر اس کے امیدواروںکو مولی،کھیرا، گاجر،بلی،ریڈیو،گدھاگاڑی جیسے انتخابی نشان دے دئیے جائیں،الیکشن کمپین کی اجازت تک نہ دی جائے ،پوسٹر ،فلیکسز اتاردی جائیں ،کارکنوںکو گرفتار کرلیاجائے

اور اس کے باوجود آزادامیدوار ’’ ہونجا ‘‘پھیردیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر تحریک ِ انصاف کے امیدواروںکو انتخاب نشان بلا مل جاتا تو سیاسی مخالفین کی جو درگت بنتی اسے دنیا ہمیشہ یادرکھتی حالانکہ عام انتخابات سے پہلے ہی مختلف حیلوں،بہانوںاور کئی زاویوںسے عمران خان کی کردارکشی کرکے ان کی شخصیت کو مسخ کیا گیاتھا کیونکہ ان کے سیاسی مخالفین عمران خان کا الیکشن میں حصہ لینا سیاست اور جمہوریت پر قابض مافیا کے لیے ڈراؤنا خواب بن چکا تھا وہ ہرقیمت پر عمران خان کو پاکستان کی سیاست سے مائنس کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بدترین شکست ان کا مقدر ہے

! اس لئے ہر قسم کا حربہ آزما کر عمران خان کو الیکشن سے باہر کردیاگیا بڑے بڑے رہنمائوں نے عمران خان سے اظہارِ لاتعلقی کرڈالا عملاً پارٹی تبربترہوگئی لیکن عوام نے ووٹ کو عزت دے کرتمام منصوبے ناکام بنادئیے اب تو سیاسی مخالفین بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ فی الحال عوامی سیاست میں عمران خان کا کوئی متبادل نہیں ہے یہ اتنی بڑی حقیقت ہے کہ جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا لیکن اب یہ بھی کہاجارہاہے کہ عمران خان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں اسی لئے اڈیالہ جیل کو دہشتگردوں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے خدشات کے پیش نظر پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان سمیت تمام قیدیوں سے ملاقاتوں پابندی عائد کر دی گئی ہے بادی النظر میں یہ فیصلہ گزشتہ دنوں بعض افغان مشکوک افراد کی گرفتاری عمل میں لانے کے بعد کیا گیا لیکن کچھ لوگوںکا خیال یہ بھی ہے

کہ اس کی آڑمیں تحریک ِ انصاف کے فیصلوںپر اثرانداز ہوناہے تاکہ کوئی رہنما اپنے قائد عمران خان سے مشاورت نہ پائے PTIرہنمائوں سیخ پاہیں کہ پنجاب حکومت سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر پی ٹی آئی رہنماوں کو بانی پی ٹی آئی سے ملنے نہیں دے رہی، پنجاب حکومت کا جیلوں سے متعلق خط کا مقصد خوف و ہراس پیدا کرنا ہے، عمران خان سیاسی قیدی ہیں، ان سے ملاقات کرنا پارٹی رہنماوں کا بنیادی حق ہے جب پنجاب میں جیل محفوظ نہیں تو اور کون سی جگہ محفوظ ہوسکتی ہے۔ اسی تناظرمیں دیکھاجائے تو احساس ہوتاہے کہ پاکستان مشکل حالات سے گزر رہا ہے، معیشت زوال پذیر ہو رہی ہے

جس سے ملک میں غربت میں خوفناک اضافہ ہوتاچلاجارہاہے ان حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے منڈیٹ کااحترام و عزت کرنا سب پر ضروری ہے ملکی سیاست ، معاشی حالات اور قوم کی بہتری کے لئے حکومت کا فرض بنتاہے کہ سب کو ساتھ لے کرچلے کسی کو دیوارسے لگاکر سر کے بل کھڑا کر کے معاملات چلانے کی خواہش و کوشش خطرناک ہوگی اس کے بڑے بھیانک نتائج برآمدہوسکتے ہیں اس لئے سیاسی کشیدگی ختم ہونی چاہیے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں