بس ایک ہی راستہ ہے ! 64

عوام کی آنکھ کا تارا !

عوام کی آنکھ کا تارا !

اس ملک کے متنازع انتخابات کے متنازع نتائج کے باوجود تین پارٹیوں نے مل کر ایک اتحادی حکومت تو بنا لی ہے ،لیکن اس اتحادی حکومت کو ایسے سیاسی و معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے کہ جن کے لیے بنیادی پالیسی میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے، وزیراعظم میاں شہباز شریف اور ان کی کابینہ میں شریک تمام لوگ ہی ان چیلنجوں سے بخوبی واقف ہیں اور اس سے پہلے مختلف حیثیتوں میں کام کرتے ہوئے ان چیلنجوں کو قریب سے دیکھ بھی چکے ہیں، لیکن ضرورت اس امر کی ہے

کہ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے اور میثاقِ معیشت یامیثاق جمہوریت جیسی کوئی ایسی پالیسی بنائی جائے کہ جس کی مدد سے ملک کو ان سنگین مسائل کی دلدل سے نکالا جاسکے، کیونکہ ان مسائل کی وجہ سے ایک طرف ریاست کمزور ہورہی ہے تو دوسری جانب عوام میں شدید مایوسی پھیل رہی ہے۔یہ اس ملک کے اہل سیاست کی رویت رہی ہے

کہ اپوزیشن کے دنوں میں اقتدار کے لئے بڑے ہی بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں، لیکن اقتدار ملنے کے بعد سارے ہی دعوئے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ،اس اتحادی حکومت کی قیادت بھی ایسے ہی کچھ دعوئوں کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے ، ایک بار پھر ریاست کیلئے سیاست دائو پر لگانے آئی ہے ، لیکن جب سے اقتدار میں آئی ہے ،سیاست کے بجائے ریاست ہی دائو پر لگی ہوئی ہے ، ایک طرف دہشت گردی کی اُٹھتی لہر بے قابو ہورہی ہے تو دوسری جانب معیشت سنبھل نہیں پارہی ہے ، جبکہ اپوزیشن کاا حتجاج آئے روز بڑھتا ہی جارہا ہے،مولانا فضل الرحمن نے بھی ایک بڑے احتجاج کا اعلان کر دیا ہے ،

اس سے سیاسی عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو گا ،حکومت جانتی ہے کہ بڑھتے سیاسی عدم استحکام میں معاشی استحکام نہیں آئے گا ،اس کے باوجود سیاسی استحکام لانے میں کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا ہے ۔اس اتحادی حکومت سے عوام نے کوئی بہتری کی خاص اُمیدیں وابستہ بھی نہیں کررکھی ہیں ، کیو نکہ یہ سارے ہی عوام کے آزمائے ہوئے لوگ ہیں ، انہیںعوام نے انتخابات میں مسترد کیا ،لیکن انہیں عوام کی مرضی کے خلاف ایک بار پھر لایا گیا ہے اور لانے والے یقین رکھتے ہیں کہ اس بار کچھ کر دکھائیں گے ،جبکہ ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ، انہوں نے اپنے پہلے سالہ ماہ کے دور حکومت میں اپنا سیاسی اثاثہ گھٹایااور اس بار اپنی سیاست بالکل ہی ڈبوئیں گے

،اس کا آگاز ان کے اقدامات کے ساتھ ہی شروع ہو چکا ہے ،ایک طرف حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ پر ٹیکس وصولیوں میں اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے تو دوسری جانب بجلی ،گیس ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ کیے جارہی ہے، جبکہ معاشی بدحالی کے باعث بے روزگاری میں مسلسل اضافہ اور قدر زر میں کمی نے عامتہ الناس کی زندگی اجیرن کردی ہوئی ہے،اس کے باعث لوگوں کی بے چینی اور حکومت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔اس وقت عوامی مشکلات نا قابل ِ برداشت حد تک جا پہنچی ہیں، جبکہ حکومت کے پاس عوامی مشکلات کے مداوے کی کوئی صورت ہی دستیاب نہیں ہے، آزمائی قیادت اپنے وہی پرانے آزمائے فار مولے دوبارہ آزمائے جارہی ہے اور سمجھ رہی ہے

کہ عوام ان کے نمائشی اقدامات اور زبانی کلامی بیانات سے بہل جائیں گے ، جبکہ ایسا ہر گز ہو نے والا نہیں ہے ، عوام کسی بہکائوئے میں آنے والے ہیں نہ ہی حکومت کے نمائشی اقدامات سے بہلنے والے ہیں ، عوام جان چکے ہیں کہ ان کے نام پر اپنوں کو ہی کھلا یاجارہا ہے اور اپنوں کو ہی نوازا جارہا ہے ، جبکہ عام لوگ کہیں مہنگائی کے بوجھ سے مررہے ہیں تو کہیں دھاتی ڈور سے اپنے گلے کٹوائے جارہے ہیں ، کہیں گٹروں میں گر کر جان کی بازی ہاررہے ہیں تو کہیں ڈاکو ،لٹیروں کے ہاتھوں لوٹ رہے ہیں،اگر کہیں بچ جائیں تو دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں ،عام آدمی کا کوئی پر سان حال ہی نہیں ہے، جبکہ حکمرانوں کی عیاشیاں ختم ہونے میں نہیں آرہی ہیں ، عوام بے موت مرر ے جارہے ہیں

اور حکمران بڑے پروٹو کولوں کے مزے لیے جا رہے ہیں۔یہ اتحادی حکومت جتنا مرضی ڈیلاگ بازیاں کرلے ،مگر اچھی طرح جانتی ہے کہ اسے عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے اور عوام کی حمایت کے بغیر حکومت زیادہ دیر تک چلائی نہیں جاسکتی ہے، اگرحکومت کچھ کام کرکے دکھائی گی تو عوام کی آنکھ کا تارا بھی بن سکتی ہے اور لوگ عوامی مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والوں کو بھول بھی سکتے ہیں،لیکن اگر ان کے سارے ہی اعلانات نمائشی اور جعلی ہی رہیں گے اور حکمران اشرافیہ عوام کی سطح پر آنے کو تیار نہیں ہوں گے

تو موجودہ حکومت کے جواز پر سوال توبار ہا اٹھتے رہیں گے ، انتخابات میں ہونے والی انجینئرنگ بھی بار بار زیر بحث آتی رہے گی ، متنازع انتخابی نتائج پر بات ہوتی رہے گی ،آصف علی زداری میاں شہباز شریف کے ساتھ مل کر جتنا مرضی بھاری یاانقلابی بنتے رہیں ،حکومت کر پائیں گے نہ ہی عوام کی آنکھ کاتارا بن پائیں گے، انہیں اور ان کے لانے والوں کو آج نہیں تو کل عوام کا فیصلہ ماناہی پڑے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں