عوام کا صبر ہی آزمائیں گے !
اتحادی حکومت پہلے بھی ریاست پر سیاست قربان کر نے کے دعوئے کے ساتھ آئی تھی ، اتحادی حکومت اب بھی ریاست پر سیاست قر بان کر نے کا نعرا لگا کر ہی آئی ہے ، لیکن ریاست کے بجائے اپنی سیاست کو بچایا جارہا ہے اور عوام کو ہی قر بانی کا بکرا بنایا جارہا ہے ،اتحادی قیادت اقتدار میں آنے سے قبل قرض سے نجات دلانے کی باتیں کرتے رہے اور اقتدار میں آکرعوام کو بتارہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے ایک اور بھاری قرضہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ،سرکاری ملازمین کوتنخواہیں بھی قرضے کے پیسوں سے ہی دی جارہی ہیں،اس سے بخوبی پتہ چلتاہے کہ ملک کس سطح کے معاشی بحران کاشکار ہے اور آنیوالے دنوں میں عوام کو مزید کتنی زیادہ مہنگائی کا بوجھ صبر سے برداشت کر نا پڑے گا۔
یہ انتہائی افسوناک صورتحال ہے کہ آزمائی قیادت اپنے ہر دور اقتدار میں مذکورہ بالا اقدامات کے بجائے بیرونی قرضوں پر ہی ا نحصار کرکے ملک کی معاشی صورتحال مزید کمزور کرنے کا ہی باعث بنتی رہی ہے، ایک طرف ملک میں معاشی بحران بڑھتا ہی چلا جارہا ہے تو دوسری جانب امن وامان کی صورتحال ابتر ہوتی جارہی ہے، ایسی صورت میں ملک کے اندر سرمایہ کار ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں
تو غیر ملکی سرمایہ کار کس طرح یہاں کا رخ کریں گے، موجودہ برسر اقتدار جماعتوں نے ڈیڑھ سال پہلے بھی ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا نعرا لگایا تھااور اس بار بھی ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے دعوئے کے ساتھ آئے ہیں، لیکن انہوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے بجائے عام آدمی کو ہی دیوالیہ کر کے رکھ دیا ہے۔
یہ آزمائے لوگوں کی آزمائی حکومت پہلے کچھ بہتر کر پائی ہے نہ ہی آئندہ کچھ بہتر کرتے دکھائی دیے رہی ہے ،یہ وہی آزمائے فار مولے آزمارہی ہے جو کہ اس سے پہلے آزماتے آئے ہیں اورسارا بوجھ عوام پر ڈالتے آئے ہیں ، اس کار گزاری کو دیکھتے ہوئی میاں نواز شریف بھی کہنے پر مجبور ہو گئے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی ،گیس ،پٹرول کتنا مہنگا کرکے عوام کے صبر کو آزمایا جائے گا،لیکن یہ سب کچھ کہتے ہوئے
میاں نواز شر یف بھول جاتے ہیں کہ اُن کی ہی حکومت ہے اور اُن کے ہی چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں،چناں چہ میاں نواز شریف کو چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف کے حکم پر بجلی ، گیس اور پٹرولیم کے نرخ بڑھانے سے صاف انکار کردیں اور کہیں کہ عوام پر ظلم کرنے کے بجائے اقتدار کو لات مار دیں گے، لیکن وہ ایسا کچھ کہیں گے نہ ہی ایسا کچھ کریں گے ،کیو نکہ انہیں ہمیشہ عوام سے زیادہ اقتدار عزیز رہا ہے ، اس لیے ہی عوام ان سے دور ہوتے جارہے ہیں۔
اس آزمائی قیادت کی تر جیحات میں عوام کبھی رہے ہی نہیں ہیں ، اس لیے ہی عوام مخالف فیصلے کیے جاتے رہے ہیں
اور عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنایا جاتا رہا ہے، اس بار بھی ایسا ہی کچھ کیا جارہا ہے، آئی ایم ایف کے کہنے پرعام آدمی کو ہی ٹیکس کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور عوام پر ہی سارا بوجھ دالا جارہا ہے ،اگرحکومت کسی بھی پیداواری صنعت یا کاروبار پر ٹیکس لگاتی ہے تو اس چیز کی قیمت بڑھا کر ٹیکس اس میں ہی ایڈجسٹ کرلیتے ہیں، اس کی ادائیگی بھی عام آدمی خریداری کی صورت میں کرتا ہے
، اسی طرح جو لوگ بجلی، گیس کے بل نہیں دیتے یا ان کو مفت بجلی گیس ملتی ہے یا جو بجلی ،گیس چوری کرتے ہیںتوان کے بلوں کے پیسے بھی عام آدمی ہی بھرتا ہے،پیٹرول اور ڈیزل مہنگا ہونے کے اثرات بھی عام آدمی پر ہی زیادہ پڑرہے ہیں، اس سے کوئی حکومتی وزیر، مشیر یابیوروکریٹ متاثر نہیں ہورہا ہے، کیو نکہ انہیں سب کچھ ہی فری میں ملتا ہے، اس ملک میں اقتدار میں آنے والوں نے ملکی پیداوار بڑھانے کیلئے کبھی کوئی عملی اقدامات کئے ہیں نہ ہی سرمایہ داروں سے ٹیکس وصول کئے ہیں، عوا م ہی قرضوں کی ادائیگی کررہے ہیں اور عوام ہی ٹیکس دیے رہے ہیں ،باقی سب ہی مل کرعیش کر رہے ہیں ۔
یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے عوام کی بر داشت اب جواب دینے لگی ہے ،عوام کے صبر کا پیمانہ اب لبر یز ہو نے لگا ہے ، خدارا! ابھی وقت ہے کہ حکمران اپنی آنکھیں کھولیں اور نمائشی بیانات دینے اور نمائشی اعلانات کر نے کے بجائے عوام کی حالات زار کو بغوردیکھیں کہ عوام کس قدر مسائل کا شکار ہورہے ہیں ، غریب غربت ،مہنگائی کے ہاتھوںتنگ آکر انفرادی یا اجتماعی طور پر اپنے خاندان سمیت خودکشیاں کررہے ہیں،لیکن حکمرانوں کی بے حسی جوں کی توں ہے ، انہیں کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا ہے ، کیو نکہ ان کے پاس اقتدار ہے اور ان کے پیچھے بڑوں کا ہاتھ ہے ،یہ ہاتھ کسی بھی وقت ہٹ سکتا ہے اور اقتدار کسی وقت بھی جاسکتا ہے ، یہ بات آزمائے حکمران بھول کر عوام کا صبر آزمائے جارہے ہیں ، جبکہ عوام کا صبر ان پر بہت جلد اُلٹا پڑنے والا ہے ۔