کسان فصل کی اُجرت سے محرروم رہے گا ! 96

راہ ِنجات کی بازگشت !

راہ ِنجات کی بازگشت !

ملک یک بعد دیگرے بحرانوں کی زد میں ہے اور حکمران دعوئے کررہے ہیں کہ سب کچھ اچھا ہو نے جارہا ہے،جبکہ ملک میں ماسوائے زبانی کلامی باتوں اور اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کے کچھ بھی نہیں ہورہا ہے ، ملک میں گندم کی بڑے پیمانے پر در آمد سے پیدا شدہ بحران کے بعد اب چینی کی بر آمد کی تیاریوں کی خبریں آرہی ہیں ، اطلاعات کے مطابق شوگر ملوں کی جانب سے چینی کے اضافی ذخائر کے اعدادو شمار دکھا کر حکومت سے چینی بر آمد کی اجازت مانگی جارہی ہے ،اگر حکومت نے چینی بر آمد کرنے کی اجازت دے دی تو ماضی کی طرح ملک بھر میں چینی کا بحران بھی سر اُٹھا لے گا۔
اس ملک حکمرانوں کو ملک کی کوئی فکر ہے نہ ہی عوام کا کوئی خیال ہے ، یہ عوام کے فیصلے کے بر خلاف اقتدار میں آنے والے پیسہ بنانے اور پیسہ کمانے میں ہی لگے ہوئے ہیں اور دعوئے کرتے ہیں کہ مال بنانے نہیں ، ریاست بچانے آئے ہیں ،جبکہ ہر کوئی مال بنانے کی بہتی گنگامیں اپنے ہاتھ دھوئے جارہا ہے اور مود الزام دوسرے کو ٹہرائے جارہا ہے ،اس بہتی گنگا میں سب نے ہی اپنے ہاتھ دھوئے

اور سب ہی ذمہ دار ہیں، اس لیے ہی معاملے کو دبایا جارہا ہے ،ایک دوسرے کو بچایا جارہا ہے ، لیکن اپنے مفادات پر ضرب لگتی ہے تو حکمران اور حکومتوں کا حصہ بننے والے خودہی ایک دوسرے کے راز افشاں کر نے لگتے ہیںاور بتانے لگتے ہیں کہ کس نے چوری کی ہے ، کس نے ڈاکہ ڈالا ہے اور کیسے ہار کو جیت میں بدلا گیا ہے ؟
یہ اس ملک کے عوام کی بد نصیبی رہی ہے کہ یہاں حقائق سامنے آنے پر بھی کسی کا احتساب ہوتا ہے نہ ذمہ داروں کو کٹہرے میںلایا جاتا ہے ، اگر کسی ایک سکنڈل کی سر کاری سطح پر چھان بین شر و ع ہو بھی جائے تو حکومتی صفوں میں سے ہی ایک ایسی لابی اُٹھ کھڑی ہوتی ہے ، جو کہ حکومت کو نہ صرف معاملات دبانے کا مشورہ دیتی ہے ،بلکہ قوم کے مجرموں کے خلاف کوئی کاروائی بھی ہونے نہیں دیتی ہے ،اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے، تحقیقاتی رپورٹ میں سب کچھ واضح ہے ،

اس کے باوجوحقائق سے گریزاں کیا جارہا ہے ،یہ جب تک سسٹم میں مڈل مین ٹائپ معاملات کا عمل دخل رہے گا، ملک میں بحران در بحران سامنے آتے ہی رہیں گے ، جیسا کہ اس وقت گندم بحران کے بعد چینی بحران کے دب قدموں کی آہٹ سنائی دیے رہی ہے ۔یہ کتنی عجب بات ہے کہ ملک ایک کے بعد ایک بحران کا شکار ہورہا ہے اور کوئی اپنی غلطی مانے کیلئے تیار ہے نہ ہی ان غلطیوں سے کوئی سبق سیکھا جارہا ہے ، بلکہ ان غلطیوں کو ہی دہرایا جارہا ہے ، گندم کی درآمد میں جو غلطی ہوئی ہے ، یہ اب چینی کی بر آمد میں دہرائی جائے گی اور کہاجائے گا کہ سب کچھ طے کردہ طریقہ کار کے تحت ہی کیا گیا ہے

، لیکن اس طریقہ کار میں موجود سقم کو دور نہیں کیا جائے گا، موجودہ طریقہ کار میں شوگر ملوں کی جانب سے پیش کردہ جعلی اعداوشمار کی تصدیق کا کوئی نظام ہی نہیں ہے ، اس کے باعث ہر سال ہی چینی کی بر آمد کی اجازت ملنے پر ملک میں چینی کی قلت پیدا ہو جاتی ہے تو پھر کثیر زر مبادلہ خرچ کرکے در آمد کی جاتی ہے ، اس کے باعث 85روپے کلو ملنے والی چینی کی قیمت 200روپے سے بھی تجاوز کر جاتی ہے ،یہ کھیل ایک عرصے سے کھیلا جارہا ہے اور اس کھیل کا ہر حکومت حصہ بن رہی ہے ، کیو نکہ اس کھیل کے کھلاڑی کوئی غیر نہیں ، سارے ہی اپنے حواری رہے ہیں ۔
یہ صورتحال بتارہی ہے کہ کرپشن کے اس گڑھے میں جتنا اترتے جائیں گے، غلاظت ہی غلاظت ملے گی،
یہ آزمائے لوگ ہی ہرطرح سے بدعنوانی کے ذمے دار ہیں اور پاک صاف بنے بیٹھے ہیں اور باتیں ایسے انصاف و عدل کی کرتے ہیںکہ جیسے ان سے زیادہ کوئی پارسا نہیں ہے،جبکہ ہر آنے والے دن میں ان کے چہرے سے ایک کے بعد ایک نقاب اتر تی جارہی ہے، یہ گندم بحران سے لے کر آنے والے چینی بحران کے بھی ذمہ دار ہوں گے ، ایسے فارم 47 والے حکمرانوںکی پشت پناہی کرنے والوں کو اب پیچھے ہٹ جانا چاہیے، اگر انہوں نے بروقت فیصلہ نہیں کیا تو اس بدعنوانی کے وہ بھی حصہ دار ہی قرار پائیں گے ،اس ریاست کی بقا ء کی بقاء کیلئے ریاست کی قیادت کو آگے آنا ہو گا اور اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کر نا ہو گا ، اہل ریاست ہی آزمائے ہوئوں کو لائے ہیں اور اہل ریاست ہی ان آزمائے ہوئوں سے ملک و قوم کو نجات دلا سکتے ہیں، یہ راہ نجات کی بازگشت ہی چارسو سنائی دیے رہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں