کاشف ملاح 138

مظلوم فلسطینیوں کو جینے کا حق دیا جائے

مظلوم فلسطینیوں کو جینے کا حق دیا جائے

کاشف ملاح
نو مور فنڈز فار اسرائیل کرائیمز (اسرائیل کو جرائم کے لیے اب مزید چندہ دینا بند کرو) کے نعرے سے امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں بشمول کولمبیا یونیورسٹی، ییل یونیورسٹی، یو ٹی یونیورسٹی اور نیویارک یونیورسٹی کے طلباء احتجاج کر رہے ہیں۔  طلباء فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کے مزید مطالبات ہیں کہ فلسطینیوں کی نسل کشی بند کی جائے۔ 
امریکہ اسرائیل کی فوجی امداد بند کرے، امریکہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کرے، فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والے اسرائیلی حکمرانوں کی سرپرستی بند کی جائے، جنگ بندی تک اسرائیلی کمپنیوں میں سرمایہ کاری بند کی جائے۔ فلسطینی اراضی پر قبضہ کرنا بند کیا جائے۔ اور یونیورسٹی کے انڈوومنٹ فنڈز کو اسلحہ ساز کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے ترقیاتی یا کسی اور شعبے میں لگايا جائے۔
طلبہ کے ان احتجاجی مظاہروں میں فلسطین یکجہتی کمیٹی بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے جو کہ مختلف یونیورسٹیوں، کالجوں اور شہروں میں سرگرم ہے۔  نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی ان مظاہروں کا مرکز ہے۔  جہاں پر مظلوم فلسطینیوں کے حمایتی 100 سے زائد طلباء کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یونیورسٹیوں سے شروع ہونے والی یہ احتجاجی تحریک اب امریکہ کے کالجوں اور سکولوں تک پہنچ چکی ہے۔
فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے میں امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلباء اکیلے نہیں ہیں، بلکہ جرمنی کی یونیورسٹیوں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یاد رہے کہ جنوبی افریقہ کے بعد نکاراگوا نے بھی عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کے بعد جرمنی اسرائیل کو بھاری مقدار میں اسلحہ فراہم کر رہا ہے، اس لیے جرمنی کو بھی جنگی جرائم کی سزا ملنی چاہیے۔ 
برطانوی نوجوان بھی فلسطینیوں کی حمایت میں آگے آگئے ہیں۔  برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ یورپ بھر میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے دارالحکومت کیپ ٹاؤن میں مقامی محکموں کے نوجوان ملازمین نے دفاتر کو تالے لگا کر ہڑتال کر دی اور شہر (ٹاؤن کمیٹی) کے رہنماؤں سے فلسطینیوں پر بمباری کے خلاف آواز بلند کرنے کا مطالبہ کیا۔
طلباء سے پہلے مزدوروں نے احتجاجی تحریک بھی چلائی تھی، اسلحہ فراہم کرنے والی ایک آمریکی کمپنی کی ٹریڈ یونین نے بحری جہازوں میں اسلحہ لوڈ کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسرائیل کا بائیکاٹ کیا تھا۔  محکمہ صحت کے ملازمین نے بھی شدید احتجاجی تحریک چلائی۔ اس وقت سول سوسائٹی کے نمائندے اور مزدور تنظیمیں بھی طلبہ کی حمایت میں آگے آ گئی ہیں۔
انہوں نے مطالبا کیا ہے کہ اسرائیل کی سرپرستی بند کی جائے اور   فلسطینیوں کو جینے کا حق دیا جائے۔  الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سول سوسائٹی کی 190 نمائندہ تنظیمیں جن میں ورکنگ فیملیز گروپ، اف ناٹ ناؤ موومنٹ، سن رائز موومنٹ، موومنٹ فار بلیک لائیوز اور جین زیڈ فار چینج شامل ہیں، نے فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج کرنے والے طلباء کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے گرفتار طلبہ کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مظاہریں کی گرفتاری اظہار آزادی پر پابندی ہے۔ گرفتار طلباء کو فوراً رہا کیا جائے۔

زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں۔

چند سال قبل ایک چھوٹی بچی کی تصویر اور اس کی تحریر بین الاقوامی میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس میں اس نے لکھا تھا آئی ایم ناٹ ٹیریریسٹ ” میں دہشت گرد نہیں ہوں” جو کہ تقریباً 10 سال کی مسلمان لڑکی تھی 9/11 کے واقعے کے بعد امریکہ اور یورپی میڈیا نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کیا تاکہ امریکہ اور یورپ کے لوگ جنگ پر ہونے والے بے تحاشہ خرچ پر آواز بلند نہ کر سکے۔  سرمایہ داروں کے زیر تسلط میڈیا نے ایک مذہب کے خلاف عوام کے ذہنوں کو مفلوج کرنے کی سازش کی تاکہ حکمران آسانی سے جنگیں لڑ کر اور خون کی ندیاں بہا کر پیسہ کما سکیں، لیکن موجودہ احتجاج نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ اور یورپ کے عوام اب جاگ رہے ہیں اور مغرب نواز حکمران میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے کی زنجیریں توڑ رہے ہیں۔  میڈیا تھیوریز کا مطالعہ کرنے والے ایک محقق میکسویل میک کومب نے کہا کہ حکمران حامی میڈیا ایجنڈے کی وجہ سے امریکہ میں سول سوسائٹی کمزور ہے جبکہ حکمران مضبوط ہیں۔  انہوں نے کہا کہ جہاں سول سوسائٹی مضبوط ہوگی وہاں حکمران کمزور ہوں گے اور میڈیا میں کوئی نہ کوئی عوامی ایجنڈا ہوگا۔ حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانے والی امریکن سول سوسائٹی ایک لمحے کے لیے صحیح مگر انہوں نے حکمرانوں سے منہ موڑ کر کہا ہے کہ امریکی عوام جنگوں سے تھک چکے ہیں۔  امن کی سرزمین، امن چاہتی ہے کا نعرہ بلند کیا ہے. جب کہ میڈیا کا ایجنڈا اس وقت حکمران کے حق میں ہے، مغربی میڈیا جنگ کر رہا ہے، لیکن سوشل میڈیا کی وجہ سے مغربی میڈیا کا یک طرفہ پروپیگنڈہ دھرا کا دھرا رہ گیا ہے، جیسا کہ ہمارے ہاں اردو میڈیا (چند ایک اخبار کو چہوڑ کر)، خصوصاً ٹی وی چینلز، ان کا ایجنڈا اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈا ہے. پڑوسی ملک بھارت کی میڈیق، جہاں ابھی الہکشن ہو رہے ہیں، مکمل طور پر مودی کو سپورٹ کر رہے ہے، جسے ھندستان میں ’’گودی‘‘ میڈیا کہا جاتا ہے، مغرب کا میڈیا سامراج کا حامی بھی ہے اور مظلوموں کے خلاف بھی، عراق کی جنگ میں مغرب کے میڈیا کا کردار انتہائی شرمناک، انسانیت کا دشمن سرمایہ دارانہ رہا، مغربی میڈیا کا امن دشمن کردار دنیا بھر میں عیاں ہے۔  مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کے نتیجے میں یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی تھی، وہ دھوکے کی دیوار اب ریزہ ریزہ ہو رہی ہے اور دنیا کے مظلوم لوگ رنگ و نسل اور مذہب کے فرق سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے سے قریب آ رہے ہیں۔ قریبی کی رفتار کچھوئے کی رفتار کی طرح کم ہی ہے لیکن مظلوموں قوموں اور عوام کی قربت بڑھ رہی ہے.

سوشل میڈیا کا اہم کردار

گلوبل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس عوامی سجاگی میں سوشل میڈیا کا اہم کردار ہے۔  امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسی مقبول سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر تحقیقات کی جس سے معلوم ہوا کہ فلسطینیوں کی حمایت میں بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے۔  امریکہ میں ہیش ٹیگ “فری فلسطین” (فلسطین کو آزاد کرو) کے ساتھ ایک کروڑ دس لاکھ فیس بک پوسٹس کی گئیں، جو کہ “وی اسٹینڈ وتھ اسرائیل” (ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں) کے ہیش ٹیگ سے 39 گنا زیادہ ہیں۔  اس طرح انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر بھی فلسطینیوں کی حمایت میں مزید پوسٹس ہیں۔

یونیورسٹیاں احتجاج کا مرکز کیوں ہیں؟

یونیورسٹیوں کے پاس انڈومنٹ فنڈ ہے، جسے وہ بیشتر کمپنیوں میں انویسٹ کرتی ہیں، اس انویسٹمینٹ کو “ڈائیورسٹ” کہا جاتا ہے، طلبہ نے مطالبہ کیا ہے کہ یونیورسٹیاں اسلحہ ساز کمپنیوں میں ان سرمایہ کاری سے گریز کریں اور اسرائیلی کمہنیوں میں بھی تب تک ڈائیورسٹ (سرمایہ کاری) نہ کریں جب تک اسرائیل جنگبندی نہیں کرتا. ان مظاہروں میں سرگرم نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے ریسرچ گروپ کی ایک محقق لیلیٰ سلیبہ نے کہا کہ ہمارا پیسہ سمندر پار بم دھماکوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس رقم کو بم دھماکوں کے بجائے عوامی فلاح کے لیے خرچ کیا جائے۔

ایک اور سمت

امریکہ کی تفتس یونیورسٹی کے پروفیسر ایتھن ہیرش نے گلوبل ٹائم کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے نوجوان اسرائیل فلسطین تنازعے کو رنگ و نسل کے تنازعہ کے طور پر دیکھتے ہیں، جس میں مظلوم فلسطینی سفید فام اسرائیلی جابروں کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔  فلسطینی-لبنانی مصنف جوء ایوب نے کہا کہ جب ایک سفید فام امریکی پولیس اہلکار نے ایک سیاہ فام امریکی کو قتل کیا تو اس کے خلاف دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے، خصوصن امریکہ میں بلیک لائیو میٹر (سیاہ فاموں کی زندگی کے معاملے) کے نعرے سے مظاہرے ہوئے تھے، اور ان پرامن مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس وقت فلسطینی نوجوانوں نے ٹوئٹ کر کے مظاہرین کو بتایا کہ شیلنگ اور آنسو گیس سے کیسے بچا جا سکے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ تجزیہ کار ان امریکی طلباء کے احتجاج کو سیاہ فام امریکی طلباء کی قیادت میں ہونے والے احتجاج کے طور پر دیکھتے ہیں۔  تاہم جنوبی افریقہ نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (عالمی عدالت انصاف) میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ فلسطینیوں کی نسل کشی بند کی جائے اور اسرائیلی حکمرانوں کو ان کے جرائم کی سزا دی جائے۔  افریقیوں، افریقی امریکیوں اور فلسطینیوں کا ایک ہی مسئلہ ہے، تینوں کو نسل کشی کا سامنا ہے۔ سندھیوں اور فلسطینیوں کا ایک اہم مسئلہ یکساں ہے کہ دونوں قوموں کی زمینوں پر قبضہ کرکے انہیں اپنے ہی وطن میں بے وطن کیا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج کرنے والے سینئر طلباء میں سے ایک جوزف فشر نے کہا کہ میں متحدہ امریکہ کے جنوبی حصے میں پیدا ہوا ہوں، جہاں ظلم، جبر اور ناانصافی ہے، ہمیں بھی فلسطینیوں کی طرح ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کا تجربا ہو گیا یے. انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح فلسطینیوں کو جدوجہد کا تجربہ ہے اسی طرح ہم (امریکی) عوام کو بھی جبر کے خلاف جدوجہد کا تجربہ ہے۔  میرے اپنے کیمپس میں امریکی حکمرانوں کی طرف سے دنیا پر مسلط کی جانے والی تمام جنگوں کے خلاف بہت سی جدوجہدیں ہوئی ہیں جن میں ویتنام اور عراق کی جنگیوں کے خلاف جدوجہد بھی شامل ہیں، لہٰذا یہ فلسطین کی جنگ کے خلاف کوئی نئی جدوجہد نہیں ہے بلکہ سابقہ ​​جنگ مخالف جدوجہدوں کا تسلسل ہے۔  یہ جدوجہد ظاہر کرتی ہے کہ امریکی عوام نے سجاگی کی طرف قدم بڑھایا ہے. جوزف نے مزید کہا کہ میرے جیسے نوجوان جانتے ہیں کہ اسرائیل امریکی سرپرستی کے بغیر کچھ نہیں ہے اگر امریکہ اسرائیل کو فوجی امداد اور ہتھیار دینا بند کر دے تو اسرائیل کچھ نہیں کر سکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں