118

صبر

صبر

تحریر:بنتِ احمد شیخ

قسط 1۔
“مے آئی کم ان میم۔”مس جویریہ مثبت جواب ملنے پر اندر داخل ہوئی ۔
“میم میٹینگ کا ٹائم ہوگیا ہے چلیں!!”
“ٹھیک ہے چلو!!” کہتے ساتھ ہی دونوں میٹینگ روم کی طرف چل دی۔ سلام کرنے کے ساتھ وہ اپنی پروقار چال چلتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔ وائٹ سلک عبایا اور ساتھ وائٹ ہی نقاب پاؤں میں وائٹ ہی سینڈلز پہنے وہ اندر داخل ہوئی۔ اس میٹینگ روم میں ٹوپ ٹین بزنس مین بیٹھے تھے، جس میں سب سے اول وہ خود تھی۔ اس کے سلام کرتے ہی ایک شخص جوکہ ٹوپ ٹین بزنس مین کے دوسرے نمبر پر تھا۔

جو اس وقت بیزار سا اپنے موبائل میں ناجانے کیا تلاش کررہا تھا چونک کر آواز کی سمت متوجہ ہوا۔ سامنے اس وجود کو دیکھ کر وہ ساکت ہوگیا۔ اس کو لگا جیسے اس کی دنیا میں بہار آگئی ہو۔ اس کا ہجر ختم ہوگیا ہو۔ اس کی دعائیں رنگ لے آئیں ہو۔ اس کے رب کو اس پر رحم آگیا ہو ۔لیکن جب اس شخص نے نظریں پھیریں تو ایسا لگا کہ کنویں کے پاس آکر بھی پیاس بجھانا باقی ہو۔ شاید نہیں یقیناً ابھی امتحان باقی ہے۔ ابھی صرف دیدار یار ہوا ہے۔ اس تک رسائی حاصل کرنا ابھی باقی ہے۔
ابھی وہ اپنے خیالوں میں ہی تھا کہ اس کی آواز پر چونک کر متوجہ ہوا۔ جو کہ اسی سے مخاطب تھی ۔
اس دشمن جان کی آواز پر وہ خود کو کمپوز کر کے اٹھا کیونکہ اب اسے یہ پروجیکٹ ہر حال میں سائن کرنا تھا۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ جو یہ جو دشمن جان بالکل انجان بن بیٹھی تھی، اس اجنبیت کو شناسائی کی رمق دینی تھی۔کچھ بھی ہو جائے اس کو اپنا بناکر رہے گا۔ چاہے اس کے لئے اس کی پوری زندگی ہی کیوں نہ صرف ہوجائے ماضی کا برا سایہ اسکے زہن سے مٹاکر رہے گا۔فیصلہ کر کے اب وہ کافی مطمئن سا پریزینٹیشن دے رہا تھا۔ تمام پہلوؤں پر سوچنے کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی یماما کو اس مغرور برفانی دیو سے کانٹریکٹ سائن کرنا پڑا ۔ جس کی وجاہت کے سحر میں سامنے کھڑا شخص کچھ بول ہی نہیں پاتا ۔

جس کے چہرے پر ایسا دبدبہ تھا کہ کوئی شخص کسی بات کو کہنے کے لئے سو دفعہ نہیں تو پچاس دفعہ ضرور سوچے گا۔ وہ مغرور دیو ہزاروں کے دلوں پر راج کرنے والا اس کا تھا، جس نے کبھی اسکی خواہش ہی نہ کی تھی۔ اس کی محنت اسکا منہ بولتا ثبوت تھی۔ جس کا ہر کام پرفیکٹ ہوتا تھا۔ جس نے آج تک ہارنا نہیں سیکھا تھا۔ جس چیز پر ہاتھ رکھتا وہ اسکی دسترس میں ہوتی۔ ابھی وہ کچھ کہتا کہ ایک دم سے دروازہ کھلا اور سال کا خوبصورت سا بچہ آنکھوں کو مسلتا “مما” پکارتا ہوا اندر داخل ہوا۔
سالک شاہ تو اس کو دیکھ کر ساکت رہ گیا۔
جاری ہے۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں