176

مذہبی منافرت پر مختلف المذہبی محبت کی جیت

مذہبی منافرت پر مختلف المذہبی محبت کی جیت

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

انڈیا گٹھ بندھن کی طرف سے راہل گاندھی کے دہلی پی ایم شپتھ گرہن کی تیاریاں نفرت پر محبت کی جیت ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے دس سالہ سنگھی مودی، مسلم دلت پچھڑی جاتی نفرت پر،انہی نفرتی سنگھی قوتوں کی طرف سے دانستہ سازشی انداز “پپو” مشہور کئے گئے،ایک اکیلے راہول گاندھی کی جدوجہد و سنگھرش جیت رہا ہے بھارت انڈیا گٹھ بندھن۔ کیچڑ کے درمیان کھلنے والے کنول کو،محبت کی نشانی مانا گیا تھا

لیکن آزادی ھند مخالف انگریزوں کے غلام ھندو مہاسبھائیوں کی آج کی سنگھی اولاد نے، محبت کی اس نشانی کنول ہی کو, نفرت کے سوداگروں کے ہتھیار کے طور بدنام و رسوا کر چھوڑا ہے۔ خود کو مہان کہلوانے یا دکھلوانے والے مودی جی کا یہ نفرتی دس سالہ سنگھی رام راجیہ،اس لحاظ سے دیش کی تاریخ کے حصہ کے طور یاد رکھا جائیگا کہ مودی جی نے، صرف اپنے نفرتی دلت مسلم مخالف منو اسمرتی والے رام راجیہ کو، سیکیولر اثاث مختلف المذہبی140 کروڑ عوام پر زبردستی لادے رکھنے کے لئے، مختلف المذہبی سیکیولر اثاث ہزاروں سالہ گنگا جمنی بھارتیہ اقدار و افکار و دیش کے سیکولر دستور العمل تک کو پامال کرتے ہوئے،

انتخابی ماحول کو مسلم مخالف منافرتی کرنے کے اور ملک و وطن پر نفرتی سنگھی ہوا چلانے کی کوشش پیہم کئے جانے کے باوجود، آج دیش کے مختلف المذہبی عوام نے، اس منافرتی ماحول میں راہول گاندھی کی طرف سے، ہزاروں کلومیٹر پیدل سفر کر محبت اخوت کے تفکر و اقدار کو ملک میں جاری رکھنے کی کوشش جو کی ہے الحمد للہ مختلف المذہبی دیش کی عوام نے، راہوں گاندھی کی طرف سے شروع کئے گئے، بھائی چارگی محبت اخوت کی لؤ کو،انڈیا گٹھ بندھن کے لئے جیت میں بدل کر رکھ دیا۔ کسی نے سچ کہا ہے

دہلی اقتدار کا راستہ یوپی سے ہوکر جاتا ہے۔ آج سے کچھ مہینے پہلے تک جس یوپی میں کانگریس کی پہچان نہ ہونے کے برابر سمجھی جارہی تھی راہول گاندھی کی محبت اخوت بھائی چارگی والی پدھ یاترا نے، ہر انتخاب بعد مودی جی کے دیش کے کسی بڑے مندر میں پوجا ارچنا سادھنا کرنے کے ڈھونگ کی قلعی کھول کر ہی رکھ دی ہے۔اور یوپی میں کانگریسں سپھا دیش کے دو نوجوان لیڈر راہول اکلیش کی جوڑی کو،اور بہارمیں تیجیسونی راہول کی جوڑی کو، اسی کے دہے کے ھندی فلم شعلے والے امیتابھ بچن اور دھرمیندر کی جوڑی کی طرح پورے یوپی بہار میں اتنا مشہور کردیا ہے کہ اس کی دھمک گنگا ماں کے بلاوے پر بنارس پہنچنےکا ناٹک کرنے والے، مودی جی کو، بنارسی پان، پچکاری کی طرح پھینکے جانے کا مزہ چکھوادیا ہے

۔ بھلے بنارس سے مودی سوا لاکھ ووٹ فرق سے جیت چکے ہیں لیکن جمہوریت کے ت۔ام اقدار کو پس پشت رکھے، ان کے خلاف انتخاب لڑنے والے تقریباً تمام تر امیدواروں کی نامزدگی رد کرتے ہوئے دس لاکھ ووٹوں کے فرق ریکارڈ ساز جیت درج کرنے کی کوشش کرنے والی آہنکاری بی جے پی مقفی جی کے لئے لاکھ سوا لاکھ کی جیت کوئی بہت بڑی جیت نہیں ہے۔جبکہ جس راہول گاندھی کو مودی جی دانستہ پپو کہتے تنگ کیا کرتے تھے اسنے یوپی و کیرالہ دونوں سیٹوں پر ریکارڈ ساز ساڑھے تین سے چار لاکھ کی بڑھت بنائے ہوئے جیت رہے ہیں۔ مسلم منافرتی نعرے بازی میں، مودی جی سے دو قدم صدا آگے نکلتے ہوئے،

سنگھی گڑھ گجرات کے بعد اپنے, آپ کو سنگھی قلعہ کے طور پر ثابت کرنے والے بلڈوزر بابا یوگی مہاراج نے، ھندو ویر سمراٹ کے طور،اپنے بڑھتے قد سے مودی جی کو خطرہ محسوس کرنے پر مجبور کیا تھا۔ لگتا تھا اب کی یوپی کی عوام رام مندر پران پرتشٹھا بعد، سنگھی مودی جی کو تیسری مرتبہ دہلی سنگھاسن پر بٹھانے میں کامیاب رہے گی۔لیکن جیل سے نکلنے کے بعد عام آدمی سربراہ کیجریوال نے، مودی جے کے 400 پار والی جیت بعد، بڑے بڑے دگجت سنگھی نیتاؤں کی طرح، یوگی کی سیاسی موت قائم کئے جانے کا تڑپ کا پتہ پھینک کر، نہ صرف یوپی سیاسی اکھاڑے میں کھلبلی پیدا کردی تھی

بلکہ 2014 نہ صرف بی جے پی کی نیا پار کرنے یا کرانے والے بالکہ گودرھرا کانٹھ اپنے ہی رام مندر کارسیوکوں کو زندہ جلا،انکی آہوتی دئیے، گجرات فساد برپا کئے، انسانیت کا خون کرنے والے مودی جی کو، اس وقت بچانے والے ایڈوانی جی تک کو مارک دشک منڈل میں زبردستی بھیجےجاتے،ان کا سیاسی کیریر ختم کرتےپس منظر میں، اور شیوراج سنگھ چوہان کے ایم پی جیت دلانے کے باوجود، انہیں سیاسی موت مار دیئے جاتےپس منظر میں، کیجریوال کے چھوارے شوشہ نے ابھرتے مسلم دشمن ھندو ویر سمراٹ یوگی جی کے دل میں خوف پیدا کرتے ہوئے،گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے، سماں یوپی کے مضبوط سنگھی قلع میں،بےوفائی، دھوکہ دہی کی دراڑ گہری کرتے ہوئے،

یوپی جیسے مضبوط سنگھی قلع کو اولاً فتح کرتےہوئے، دہلی سنگھاسن پر قابض ہونے کے انڈیا گٹھ بندھن خواب کو، شرمندہ تعبیر کرنے خود یوگی جی نے بڑا رول ادا کیا ہے۔یوپی میں بی جے پی خلاف ماحول بنانے میں، اننت کمار جیسے سنگھی بڑبولوں کے،دلتوں پچھڑی جاتیوں کےحقوق رکھوالی کرنے والے دیش کے سیکیولر دستورالعمل کو بدلنے کے لئے بی جے کا 400 پار جیت حاصل کرنا انتہائی ضروری، مہان مودی جی کےاور ان سنگھی لیڈروں کے بڑبولے پن نے،یوپی کے 35% دلت و آدیواسی لوگوں میں دیش کا دستور بدلتے بھارت میں منواسمرتی والے سنگھی چھوت چھات کلپنائی رام راجیہ آنے کا ڈر اور خوف بٹھا، بی جے پی کی ہار کا سبب بن گیا ہےان انکابڑبولاپن

ہمارے ہزار اختلافات صحیح، مہاراشٹر کی سیاست میں بال ٹھاکرے کے رول و قد کو نکارا نہیں جاسکتا ہے۔ 2014 سے پہلے سے ہی بھارت کی سیاست میں، ہی جے پی کا قد مہاراشٹر شیو سینا کے ساتھ اشتراک سے ہی بڑھا ہے۔ اپنے محسن شیوسینا پارٹی ہی کوٹوڑ،بال ٹھاکرے کے بیٹے اودھو ٹھاکرے کو سی ایم پد سے، جس بے وفائی سے ہٹایا گیا ہے اس کا رد عمل مہاراشٹر کی عوام سے آنا تو تھا

ہی۔ یوپی میں بی جی پی قلع کی یوگی بے وفائی والی سیندھ ماری نے، مہاراشٹر کے ساتھ دیش کے مختلف صوبوں میں، لاتسخیر سمجھے جانے والے مودی بے جے پی، کے خلاف انڈیا گٹھ بندھن کو مضبوط تر ہونے میں بڑی مدد کی ہے۔ بہار میں پلٹو چاچا کو وفاداری بدلنے پر مجبور کرتی آپریشن کنول سازش نے بھی سنگھی سنگھاسن ڈولنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔
ویسے مودی جی، اپنے رام مندر پران پرتشٹھا کے بعد یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ انکے اپنے پرانے مذہبی چولے سے، اسی کروڑ ھندوؤں کی پوچا ارچنا بھگتی کو دھوکہ دینے میں وہ کامیاب رہیں گے اور اگر کچھ کسر باقی رہی بھی تو، انکے دست راز چانکیہ,قانون ویستھابرقرار رکھنے والی دیش کی سب سے بڑی طاقت و قوت کے مالک تڑی پار امیت شاہ کی کمل سازش کلاکارہوں کےچلتے، مودی اپنا سنگھاسن بچانے کے لئے پورے پر امید تھےاور کم مارجن سے ہار اور جیت کا فیصلہ ہونے والی 150 سیٹوں والے دیش کے ڈسٹرکٹ میجسٹریت کو، یوم منسٹری کی طرف سے براہ راست فون، سنگھی ہدایات دئیے ان 150 سیٹوں پر سنگھی جیت دلوانے کی پوری کوشش بھی کی گئی تھی۔ لیکن دیش میں بدلتے انتخابی رجحان کو دیکھتے ہوئے، مقررہ حد سے تجاوز کر اپنا کیریر خراب کرنے، کون اعلی تعلیم یافتگان ڈسٹرکٹ میجسٹریت چاہے گا؟
چونکہ ہم یہ انتخابی نتائج سر شام مکمل نتائج آنے سے قبل، اپنی شریر انگلیوں کے بے ہنگم ناچ سے موبائل اسکرین پر عکس بند کر رہے ہیں ہوسکتا ہے بنارس میں مودی جی آپنی عزت بچا پائیں لیکن یوپی کے عوام نے انہیں یکسر رد کرتے ہوئے، راہول گاندھی کو اگلے وزیر اعظم ہندستان بننے کا آشیرواد گویا دے دیا ہے۔
اکھنڈ بھارت کبھی بھی ترقی پزیری کے مدارج طہ کرتے ہوئے عالمی سربراہ بن سکتا ہے اسی خدشے کے پیش نظر، آزادی ھند کی تحریک سے تنگ آئے انگرئز بھارت کو آزاد چھوڑ جاتے جاتے،اپنے سازشی ذہن و تفکر سے ، سردار پٹیل و جناح کے دل میں، مذہب کی بنیاد پر،ملک کا بٹوارہ کرنے کا خیال ڈالتے ہوئے، ہم ہندستان پاکستان کو، انگریزوں نے عالمی سازش کے تحت دو ملکوں میں بھلے ہی تقسیم کردیا تھا

لیکن دونوں ملکوں کے عوام کا تفکر و تخیل ایک حد تک یکساں ہی تھا اور اب بھی آزادی ھند و پاک پر 78 سال گزرنےکے باوجود یکساں ہی ہے۔ بھارت کو نہرو ابوالکلام جیسے سیکیولر ذہن کانگرئس سرکار ملی تو اس وقت آزاد بھارت کے راجے مہاراجے نواب، نظام و وڈیروں کے اثر و رسوخ سے ملک و وطن کو آزاد کرتے ہوئے، اپنے پانچ سالہ طویل مدتی پلاننگ سےملک و وطن کوبتدریج ترقی پزیری کے مدارج طہ کرتے کراتے ہوئے

، 2014 عام انتخاب پہلے تک،اس وقت کی کانگرئسی من موہن سرکار، عالم کی سب سے تیز ترقی پزیر سرکار بنتے ہوئے ،اس وقت کے عالمی معشیتی پنڈتوں کی مانیں تو، بھارت 2030 تک عالمی سربراھی کے قابل ولایق ملک بن جانا تھا جو اس دس سالہ سنگھی مودی یوگی منافرتی رام راجیہ کی بھینٹ چڑھتے ہوئے، چائینا کی ترقی پزیری کے مقابلے بھارت بالکل ہی پچھڑ چکا ہے۔لیکن پاکستانی عوام کو اس وقت آزاد پاکستان کے لیڈر جناح کی علالت و موت بعد پنجابی وڈیروں ہی کے تسلط میں آجانے کی وجہ سے،کچھ سالا سیاسی حکومت چھوڑ ستر بالکہ 78 سال تک پڑوسی ملک پاکستان پر درپردہ فوجی اثر و رسوخ والی پنجابی وڈیرہ حکومت ہی رہی

۔ ابھی حالیہ 2024 کے شروعات میں اختتام پذیرانتخاب میں، پاکستانی عوام نے افواج پاکستان و انتظامیہ کی مرضی کے خلاف قومی سیاسی ھیرو عمران خان کی پارٹی کو بھاری اکثریت سے کامیاب کیا تھا لیکن عالمی سربراہ امریکہ کی پوری سرپرستی والی افواج پاکستان نے،عوامی منتخب حکومت کو، اپنے سازشی ذہن انتخابی کمیشن پر، اپنے اثر و رسوخ سے انتخابی نتائج بدلتے ہوئے، پاکستان پر فوج کے اشاروں پر ناچنے والی کٹھ پتلی عوامی حکومت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ہٹلری نازی سوچ و تفکر والے مودی جی نے بھی دیش کی عدلیہ سے دو دو ہاتھ کرتے ہوئے، اپنے کٹھ پتلی الیکشن کمیشن کے ساتھ حالیہ انتخاب پر اثر انداز ہوتے ہوئے تیسری مرتبہ دہلی کی سپتھا پر قابض رہنے کی پوری کوشش کی تھی

لیکن دیش کو انگریزوں سے آزادی دلانے والے آل انڈیا کانگرئس کے سابق صدر، جوان سال رہنما راہول گاندھی نے، اپنی دور رس نگاہ سے، سنگھی سازش کو سمجھتے ہوئے، کئی ہزار کلومیٹر کنیا کماری سے کشمیر تک اپنی پہلی پدھ یاترا سے تو،منی پور سے ممبئی تک اپنی دوسری پدھ یاترا سے دیش کی اصل جنتا عوام سے اپنا تعلق خاص جوڑے، آزادی بھارت کے اٹہتر سال بعد 140 کروڑ عوام کو ملک و وطن کی دولت لوٹنے والےان گندمی سنگھی فرنگیوں سے جہاں واقعتاً حقیقی آزادی دلوائی ہے۔
رام جنم بھومی ایودھیہ سے بی جے پی امیدوار اور سابقہ ایم ایل اے للو سنگھ کی ممکنہ شکست سے مودی جی کا رام مندر دھومی کرن مسلم مخالف ایجنڈا پوری طرح دیش کی ھندو عوام نے مسترد کردیا لگتا ہے۔مودی جی کی خاص الخاص اسمرتی آیرانی بہت بڑی مارجن سے عام سے کانگریسی کاریہ کرتا سے بری طرح ہار چکی ہیں۔ یوپی کے عوام نے عام بھارت واسیوں کی توقعات سے پرے،انڈیا گٹھ بندھن کو جس طرح سےجتوایا ہے وہ دیکھنے لایق ہے۔ سابقہ دس سالہ سنگھ مودی رام راجیہ میں، انکم ٹیکس ای ڈی کی دھمکیوں سے جن چھوٹی چھوٹی پارٹی لیڈروں کو ڈرا دھمکاکر انہیں توڑتے ہوئے، بھاجپا سابقہ دس سالوں میں اپنے آپ کو سب سے مضبوط پارٹی کی صورت پیش کرتی آئی تھی۔

اب انڈیا گھٹ بندھن کی سرکار بننے کے بعد چڑھتے سورج کے پجاری یہ سب بی جے پی این ڈی اے اتحاد سے ٹوٹ ٹوٹ بکھرتے ہوئے، انڈیا اتحاد میں شامل ہوئے، انڈیا اتحاد کو مضبوط تر کرتے چلے جائیں گے۔بہاری پلٹو چاچا کو زبردستی بی جے ہی کا اتحادی بنائے انتخاب لڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اب اگر مرکزی حکومت میں ڈیپیوٹی پرائم منسٹر کا آفر کئے جانے کے بعد پلٹو چاچا نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو انڈیا اتحاد کا حصہ بنتے ہیں تو انڈیا اتحاد کو مرکزی حکومت قائم کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔

ویسے بھی 140 کروڑ دیش کی جنتا نے دس سالہ سنگھی مودی سرکار کی معشیتی پالیسیز کے خلاف ووٹ دیا ہے اس لئے اپنی اخلاقی ہار تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپ کو غیر مرئی تصور کرنے والے مودی جی کو، دئش کی سپتاہ چھوڑدینی چاہئیے۔ آنے والے دو ایک دنوں میں دیش کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے معلوم ہوجائے گا۔ اگر انڈیا گٹھ بندھن حکومت سازی میں کامیاب ہوتی ہے

تو انہیں جہاں بھارت کے ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دینی از حد ضروری ہے وہیں پر سابقہ دس سالہ سنگھی مودی رام راجیہ میں، کورونا وقت کے پی ایم فنڈ، الکٹورل بانڈ سمیت اپنے گجراتی سنگھی پونجی پتیوں کے معاف کئے قرضوں کی تفصیل عوام کے سامنے لائی جانی ضروری ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ ای وی ایم طرز انتخاب چھیڑ چھاڑ کتنے حد تک انتخابی نتائج متاثر کئے گئے ہیں اس کی بھی تحقیق کئے جاتے عوام کے سامنے پرت ڈر پرت حقائق سامنے لائے جانے ضروری ہیں۔ آنے والے دنوں میں،اپنے آپ کو اوصول پرست کہنے والی بی جے پی پارٹی حصول اقتدار کے لئے آندر ہی اندر ایک دوسرے کے پاؤں کھینچتے منظر نامے سے دیش کی عوام کو لطف اندوز ہونے کا موقع بھی ملے گا۔ وما علینا الا البلاغ
ای ڈی انکم ٹیکس ڈر سے این ڈے اے سے جڑی تمام چھوٹی پارٹیاں انڈیا اتحاد میں آتے ہوئے اسے مضبوط بناجائیں گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں