154

آخری ملاقات

آخری ملاقات

مصنفہ: فاطمہ بنتِ لیاقت علی
آخری ملاقات

وہ اسٹیشن پر کھڑی اس بینچ کو دیکھ رہی تھی، اچانک اس نے کسی کی آہٹ محسوس کی۔ عذرا! کیا دیکھ رہی ہو؟ فرحین نے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔ نہیں کچھ نہیں بس، عذرا نے آنسو چھپاتے ہوئے کہا۔ ارے عذرا! تم رو رہی ہو، ہوا کیا ہے؟ فرحین نے اس کے آنسو پونچھے۔ اس بینچ کو دیکھ رہی ہو، یہاں ہم آخری بار ملے تھے۔ عذرا نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔ اب وہ کہاں ہے؟ فرحین نے سوالیہ انداز سے پوچھا۔ عذرا نے آنکھوں میں اداسی لیے جواب دیا، “وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔”

فرحین نے حیرانی سے کہا، “کیا؟ یہ کب ہوا؟” عذرا نے نم آنکھوں سے جواب دیا، “چند ماہ پہلے، حادثہ ہوا تھا۔ اس دن ہم یہاں ملے تھے، وہ وعدہ کر رہا تھا کہ جلد واپس آئے گا، مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔” فرحین نے عذرا کو گلے لگاتے ہوئے کہا، “عذرا، میں تمہارے دکھ کو سمجھ سکتی ہوں، مگر تمہیں اس کی یادوں کے ساتھ جینا ہوگا۔” عذرا نے سر ہلایا اور بولی، “ہاں، اس کی یادیں ہی اب میری زندگی ہیں۔” دونوں دوستوں نے آنسو پونچھے اور آہستہ آہستہ اسٹیشن سے باہر نکل گئیں، دل میں ایک نہ بھولنے والی یاد لیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں