132

شاخ نازک پراپنا ہی آشیانہ !

شاخ نازک پراپنا ہی آشیانہ !

ملک میں ہر کوئی دوہائی دیے رہا ہے کہ حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں ، اہل سیاست بھی تائید کر رہے ہیں کہ حالات خراب ہورہے ہیں توپھر اہل سیاست کو مل بیٹھ کر پارلیمان میں ان کا کوئی حل تلاش کر نا چاہئے ،لیکن اس طرف کوئی سنجیدگی سے غور کررہا ہے نہ ہی مفاہمت کیلئے کوئی موثر قدم اُٹھارہا ہے ،ہر کوئی ایک دوسرے پر ہی ڈال رہا ہے اور ایک دوسرے کوہی مود الزام ٹہرا ئے جارہاہے ، اس پر عدالت اعظمیٰ سے بھی ریماکس آنے لگے ہیں کہ جب آگ لگی ہو تو پھرپاکی، ناپاکی نہیں دیکھی جاتی،بلکہ پہلے آگ بجھائی جاتی ہے،اگرملک میںکچھ بھی ہوگیا تواس کی ساری ذمہ داری اہل سیاست پر ہی عائد ہو گی
یہ کتنی عجب بات ہے کہ سب ہی مان رہے ہیں کہ ملک کے حالات انتہائی خراب ہیں ،مگر ان حالات کو بہتر بنانے کیلئے کوئی اپنا کر دار ادا کر نے آگے ہی نہیں آرہا ہے ، ہر کوئی ایک دوسرے سے توقع کررہا ہے اور ایک دوسرے پر ہی ڈالے جارہا ہے ، اگر ملک کے اتنے خراب ہوتے حالات کاسب کوہی ادارک ہے تو پھر سب کو ہی آگے بڑھتے ہوئے اپنا کردار ادا کر نا چاہئے ، ایک دوسرے کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھانا چاہئے اور مل بیٹھ کر اتنے خراب حالات بہتر بنانے کیلئے کوئی ایسا لائحہ عمل بنانا چاہئے کہ جس پر سارے ہی متفق ہوں، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے ، اُلٹا عزت ہتک جیسے قوانین منظور کر کے انتشار برپا کیا جارہا ہے ،ا س رویئے کو دیکھتے ہوئے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے جان بوجھ کر حالات خراب کیے جارہے ہیں اور اس میں سارے ہی برابر کے شر یک کار ہیں
ملک آئے روز بد حالی اور عدم استحکام کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے اور حکمران ذاتیات کی سیاست کرنے اور اپنے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے میں ہی لگے ہوئے ہیں ، اس کیلئے جہاںقانون سازی ہورہی ہے ،وہیں حسب ضرورت آرڈینس بھی پاس کیے جارہے ہیں ، لیکن ملک کے حالات بہتر بنانے اور استحکام لانے کیلئے کوئی موثر حکمت عملی بنائی جارہی ہے نہ ہی کوئی مفاہمتی اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں ،اگر حکومت اداروں سے لے کر پارلیمان تک کو صرف اپنے حصول مفاد کیلئے ہی استعمال کرتی رہے گی تو حالات میں بہتری آئے گی نہ ہی ملک میں استحکام لایا جاسکے گا ، بلکہ مزید انتشار ہی بڑھتا جائے گا ،حکومت شائد ایسا ہی کچھ چاہتی ہے، کیو نکہ یہ سب کچھ دیئے گئے ایجنڈے میں شامل ہے
اہل اقتدار کب تک دوسروں کے ایجنڈے کی تکمیل میں ہی لگے رہیں گے اور کب تک دوسروں کے ہی اشاروں پر چلتے رہیں گے اوراس کے بعد شکوئے شکایت کرتے رہیں گے کہ ہمیں کیو ں نکلا گیا ہے ؟جبکہ یہ سب بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں ضرورت کے تحت ہی لایا جاتا ہے اور ضرورت پوری ہونے پر دست بردار کر دیا جاتا ہے ، یہ سب کچھ جانتے ہوئے شکوئے شکایاتکرنے کے بجائے عوام مخالف حصار اقتدار سے باہر نکلنا چاہئے اور ایک عوامی نمائندے کی حیثیت سے ایوان پارلیمان کو مضبوط کرنا چاہئے ، ایک مضبوط ایوان پارلیمان ہی اہل سیاست کو اغیار کی غلامی سے بچا سکتی ہے اور طاقتور حلقوںکو اپنے تا بع لاسکتی ہے ، اگر اہل سیاست اپنے مسائل کے حل کیلئے سنجید گی سے پارلیمان کو ہی بروکار لائیں تو نہ صرف سیاسی مکالمے کی راہ ہموار ہو گی ، بلکہ سیاسی در جہ حرارت بھی اعتدال پر آجائے گا، لیکن اس کیلئے ایک دوسرے کو قبول کرنا ہو گا ،ایک دوسرے کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنا ہو گااور باہمی مشاورت سے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر نا ہو گا
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہی ایک میز پر بیٹھنے کا ہے ، حکومت زبانی کلامی بیٹھنے کی باتیں بہت کرتی رہتی ہے ،لیکن اپوزیشن کے ساتھ بیٹھتے ہوئے ڈر تی ہے کہ اقتدار ہاتھ سے نکل جائے گا ، جبکہ اپوزیشن بے اختیار حکومت سے بات کرنے کو تیار ہی نہیں ہے ،وہ با اختیارسے بات کر نا چاہتے ہیں ،جبکہ با اختیار بضد ہیں کہ بات نہیں کر یں گے تو پھر معاملات کیسے آگے بڑھیں گے اوراس بحرانی کیفیت سے ملک کیسے نکلے گا ، یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے، اگر ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں رہے گا ،اس ملک کی بقاء اور خوشحالی واستحکام کیلئے سب کو اپنی ذاتیات سے آگے نکل کر قومی مفاد میں مل بیٹھنا ہو گا ، اس سمت میںعدالت عظمیٰٰ بھی آگے بڑھنے کا اشارہ دیے رہی ہے،اگر یہ مرحلہ بخوبی طے پاجائے تو آگے کی راہیں کھلتی چلی جائیں گی اور مسائل کے حل کی کلید بھی ہاتھ لگ جائے گی
اگر دیکھا جائے تو قوموں کی زند گی میں جب بھی مشکل دور آتے ہیں تو سیاسی قیادت ہی ایسے دوراہے سے نکلنے کا کوئی راستہ نکالتی ہیں ، مگر ہماری قیادت کا رویہ مسلسل ہی مایوس کن رہا ہے ،یہ بہت کچھ چاہتے ہوئے بھی کچھ کر ہی نہیں پارہے ہیں ، حالانکہ بہت سے ایسے مواقع آئے ہیں کہ جب مفاہمت کا ڈول ڈالا جاسکتا تھا ، ایک دوسرے کو قر یب لایا جاسکتا تھا ، ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھا جاسکتا تھا،لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا ،کیو نکہ اس حکومت کے پاس مفاہمت کا اختیارہے نہ ہی بااختیار کی مرضی کے خلاف کوئی مکالمہ کر سکتے ہیں، اس لیے وقت کا مزید ضیاع کیے بغیر با اختیار کوہی آگے آنا ہو گا اور اس بھنور سے ملک وعوام کو نکالنا ہوگا ، اہل سیاست اور اہل ریاست کو چاہئے کہ اس در خت کی جڑوں کو ہی مزید کھو کھلا کر نے سے گریز کریں کہ جس کی شاخ نازک پر اپنا ہی آشیانہ ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں