154

وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے!

وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے!

ملک بھر میںسیاسی استحکام کے بغیر معیشت کی اصلاح کے امکانات ناقابلِ تصور ہیں ،اس کے باوجود اتحادی حکومت بضد ہے کہ معاشی استحکام لاکر ہی دکھائیں گے ، جبکہ ایک کے بعد دوسرا عالمی ادارہ پاکستانی معیشت کی تباہی و بربادی کے حوالے سے اپنے تاثرات بیان کررہا ہے، لیکن حکومت کسی بھی معقول آواز پر کان دھرنے کو تیار ہے نہ ہی مان رہی ہے کہ عوام کی گردنیں اور جیبیں اپنی گرفت میں لے کر پورا زور معیشت کا گلا گھونٹنے اور قرضوں کے انبار لگانے پر ہی لگایا جارہا ہے،

یہ آزمائے لوگوں کی تیسری حکومت ہے، جو کہ علی الاعلان معیشت کی بربادی کی وجہ بن رہی ہے، مگر ڈنڈے اور بندوق کے زور پر ہانکنے والے اپنے ہی فیصلوں کے حصار سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیںہیں،جبکہ وقت بڑی تیزی سے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔اس ملک کے سیاسی و معاشی حالات طویل عرصے سے کسی نہ کسی وجہ سے خراب ہی چلے آ رہے ہیں،لیکن اس کی وجوہات بارے جاننے کی کبھی کسی کو فرصت ملی نہ ہی نہ ہی اس بارے کوئی جانا چاہتا ہے ، ہر کوئی ایک دوسرے کوہی مود الزام ٹہرائے جارہا ہے

،ایک دوسرے پر ہی ساراوجھ ڈالے جارہا ہے ، جبکہ اس کے سارے ہی ذمہ دار رہے ہیں اور اس سے نکلنے کاکسی کے پاس کوئی پلان نہیں ہے ، ہر کوئی اداروں کو نیلام کرنے کی بات کرتا رہا ہے ، ہر کوئی ادارے بیچنے پر ہی زور دیتا رہا ہے ،اس حکومت کے وزیر خزانہ کے پاس بھی ایک ہی حل ہے کہ اداروں کو پرائیوٹائز کیا جائے ، اس کے علاوہ کوئی چارہ ہے نہ ہی ان کا بوجھ حکومت اُٹھا سکتی ہے، حکومت بڑی ا ٓسانی سے ملک کے اثاثے فروخت تو سکتی ہے ،مگر ان اثاثوں فروخت ہونے سے بچا نہیں سکتی ہے ۔
اتحادی حکومت ایک طرف معاشی استحکام لانے کیلئے قر ضوں کا سہارا لے رہی ہے تو دوسری جانب ملک کے اثاثے فرو خت کیے جارہی ہے ،حکومت اپنے اخراجات کم کررہی ہے نہ ہی خود انحصاری کی جانب جارہی ہے ، اس ملک کی معیشت میں قر ضوں سے بہتری آئے گی نہ ہی خود انحصاری کے بغیر خوشحالی آئے گی ، لیکن یہ حکومت کی تر جیحات ہیں نہ ہی انہیں حکومت اپنی تر جیحات میں شامل کررہی ہے

، اتحادی حکومت وہی کچھ کررہی ہے جوکہ اس سے قبل کرتی آرہی ہے ، اس آزمائی حکومت کے وہی پرانے آزمائے فار مولے ہیں ، یہ فار مولے پہلے بھی ناکام رہے اور آئندہ بھی ناکام ہی رہیں گے ، اس کے باوجود دوسروں کے دیئے ایجنڈے پر کام ہو رہا ہے ، معاشی بحالی کے نام پر اونے پونے داموں اپنے اثاثے فروخت کر کے معاشی بحالی اور عوامی خوشحالی کا ایک ایسا خواب دکھایا جارہا ہے کہ جس کی تعبیر انتہائی بری ہو سکتی ہے ۔
اس آزمائی اتحادی حکومت کو اس سے غرض نہیں ہے کہ ملک وعوام کے ساتھ کیا کچھ ہونے جارہا ہے ، حکومت کو غرض ہے کہ اس کا اقتدار چلتا رہے ، اس کیلئے تمام کام عبوری ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت ہی کیے جاتے ہیں ،

انہیںملک کے اثاثے فروخت ہونے کا درد ہے نہ ہی خود مختاری جا نے کا کوئی افسوس ہے، انہیں تو بس ،اس سے غرض ہے کہ ہمیںریلیف کے لئے کچھ پیسے ملنے چاہئے، اس کیلئے چاہئے کوئی قیمت بھی ادا کر نا پڑے ، کردی جاتی ہے ، اس میں حکمرانوں کا کیا جاتا ہے ؟ حکمرانوں کو ہر جانب سے ہی فائدہ ہوتا ہے ، جبکہ ملک و عوام دائو پر لگتے ہیں ، اپنی آزادی خود مختاری کھوتے ہیں اور غلامی کا ایک کے بعد ایک طوق گلے میں ڈالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ،لیکن اس بار مجبوریوںکا سلسلہ آگے چلتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔
عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے اور وقت بری تیزی سے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے ،عوام آئے روز کے آزمائے کھیل تماشوں سے اب تنگ آچکے ہیں ، عوام ان سب سے نجات چاہتے ہیں ، اس کیلئے سڑکوں پر آنے اور ہر قر بانی دینے کیلئے تیار ہیں ،لیکن حکومت غلط فہمی کا شکار ہے کہ انہیں بزور طاقت روک پائے گی ، ان کی آواز پہلے کی طرح دبا پائے گی،انہیں دیوار سے لگا پائے گی،جبکہ ایسا کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے ، عوام کے احتجاجی ریلے سب کچھ اپنے ساتھ ہی بہا لے جائیں گے اور حکمران حیران و پریشان دیکھتے ہی رہ جائیں گے کہ ایک بار پھر ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے اور یہ ہاتھ کرنے والے کوئی اور نہیں ،وہی طاقتور لوگ ہیں ،جوکہ انہیں لے کر آئے ،پھر نکال رہے ہیںاور نکالے گئے واپس دوبارہ لا رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں