بھنور سے کشتی کو نکلا جائے ! 89

اُمید کی کرن پھوٹ سکتی ہے !

اُمید کی کرن پھوٹ سکتی ہے !

اس اتحادی حکومت کے دوسرے دور ے اقتدار کو پانچ ماہ ہو رہے ہیں ،لیکن ملک وعوام کے حالات زندگی میں کوئی تبدیلی آرہی ہے نہ ہی حکومت کی تر جیحات بدل رہی ہیں، حکومت کا بنیادی فرض عوام کو ان مسائل سے نجات دلانا اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے ،لیکن ہمارے حکمرانوں کا طرز عمل قطعی برعکس ہے،

وہ اپنے عام آدمی کے مسائل کے حل کے بجائے ایسی پالیسیاں نافذ کر رہے ہیں کہ جن سے عام آدمی کے مصائب و مشکلات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہی ہو رہا ہے ،اس کی نمایاں ترین مثال حکومت کی جانب سے آئے دن پٹرولیم ،بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہے اور اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ چھوٹے کاروبار سے لے کربڑی صنعتیں تک بندش کا شکار ہورہی ہیں،اگر ملک میں کاروبار ی اور صنعتی پہیہ بلا تعطل رواں نہیں رہے گا تو عوام کو روزگار کے نئے مواقع کیسے میسر آئیں گے اور کیسے عوام بڑھتی مہنگائی کے اثرات سے بچ پائیں گے؟
یہ کتنی عجب بات ہے

کہ مسائل زدہ عوام بلبلارہے ہیں اور حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ، حکمران عوام کے مسائل کا تدارک کرنے کے بجائے عوام کے مسائل ہی بڑھاتے جارہے ، عوام پرنئے آضافی ٹیکس لگائے جارہے ہیں ، بجلی ،گیس ،پڑولیم کی قیمتیں بڑھائے جارہے ہیں اور خودحکمران اشرافیہ مفت بجلی ،گیس ، پٹرول استعمال کر نے کے ساتھ اپنی مرعات میں آضافہ کیے جارہے ہیں ، یہ آئی پی پیز کی آڑ میں عوام کے خون نچوڑ نے کا سلسلہ مزید چلے گا نہ ہی آئی ایم ایف کا سارا بوجھ عام عوام اُ ٹھائیں گے ،

اس عوام مخالف فیصلوں کے خلاف عوام سراپہ احتجاج ہیں اور سڑکوں پر نکلنے کیلئے تیار دکھائی دیتے ہیں ،اس کی قیادت عوام کی مقبول قیادت کو کر نی چاہئے ، لیکن عوام کی مقبول قیادت کو پا بندسلاسل کر دیا گیا ہے اور اس پارٹی کی دیگر قیادت کو ہر ساں کیا جارہا ہے ، انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، اس صورتحال کا فائدہ جماعت اسلامی نے اُٹھایا ہے اور عوام کو اسلام آباد بلایا ہے ، اس حکومت کی پا لیسوں کے خلاف لیاقت باغ میں دھرنا جاری ہے ، امیر جماعت اسلامی کی قیادت میں کامیاب دھر نے کی بدولت ہی عوام مخالف حکومت مذاکرات کر نے پرمجبور دکھائی دینے لگی ہے۔
اتحادی حکومت کا خیال تھا کہ عوام مخالف فیصلوں کے باوجود باہر نہیں نکلیں گے ، لیکن عوام کے احتجاج میں روز بر وز اضافہ دیکھ کر حکومت پیچھے ہٹنے پر نہ صرف مجبور دکھائی دینے لگی ہے ،بلکہ جماعت اسلامی کی قیادت کے ساتھ تحریک انصاف قیادت کو بھی مزاکرات کی دعوت دینے لگی ہے ،کیو نکہ اس دھر نے سے حکومت پر واضح ہو گیا ہے کہ عوام کا صبر جواب دیے گیا ہے اور اس دھر نے کے ساتھ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج ،دھرنے بھی شروع ہو گئے تو اس کا بوجھ حکومت اُٹھا پائے گی

نہ ہی اپنی جان چھڑا پائے گی ،اس لیے عوام کے شدید ردعمل آنے سے قبل ہی اس کی شدت میںکمی لانے کی کائوش کی جارہی ہے ، لیکن اس کائوش میں کتنی سنجیدگی ہے ،اس کا مزاکرات کے آغاز سے پہلے ہی پتہ چل جائے گا ، کیو نکہ ایک طرف سیاسی کارکنان کے گھروں پرچھاپے اور گر فتاریاں ہورہی ہیں تودوسری جانب مزاکرات کی دعوت دی جارہی ہے ، اس طرح مزاکرات ہو سکتے ہیں نہ ہی معاملات آگے بڑھائے جا سکتے ہیں ،اس کیلئے ایک با اختیار حکو مت کو فیصلہ کر نا ہو گا کہ سارے الجھے معاملات کو کس اندازسے سلجھانا ہے ، جبکہ اس بے اختیار حکومت کے پاس فیصلہ سازی کا کوئی خاص اختیار ہی نہیں ہے ۔
یہ حکومت عوام کی مرضی سے آئی ہے نہ ہی اس حکومت کو عوام کی حمایت حاصل ہے ، یہ حکومت جن کے سہارے آئی ہے ،اُن کے ہی سہارے چل رہی ہے اوراُن کی ہی جانب دیکھ رہی ہے کہ وہ اس بارے کیا فیصلہ کرتے ہیں ، اس حکومت کا کام اُن کے فیصلوں پر عمل کر نا ہی رہ گیاہے ، اس لیے ہی اپوزیشن جماعتیں با اختیار لوگوں سے ہی مزاکرات کی بات کرتی ہیں ، سارے سٹیک ہو لڈر کے ساتھ مل بیٹھ کر الجھے معاملات سلجھانے کی بات کرتی ہیں

، اگر ایسے نہیں کرناتو نیوٹل رہنے کی بات کرتی ہیں،اپنے اپنے دائرے میں رہنے کی بات کرتی ہیں،کیو نکہ تیزی سے گزرتے وقت کے ساتھ بچائوکے آپشنز بتدریج گھٹتے گھٹتے خاصے کم ہو تے جارہے ہیں، لیکن اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کوئی اُمید کی کرن سیاسی بحران کے خاتمے سے ہی پھوٹ سکتی ہے، ایک دوسرے سے مکالمہ سے ہی کوئی بہتری کی راہ نکل سکتی ہے، اس میں اہل سیاست کے ساتھ اہل ریاست کو بھی اپنا کردار ادا کر نا ہو گا،ہر عوامی احتجاج اور دھرنے کے خلاف طاقت کا استعمال کر نے کے بجائے مفاہمت کا ہی راستہ اختیار کر نا ہو گا،اس سلسلے میں مزید جتنی تاخیر ہو گی ،اس کی اتنی ہی بڑی قیمت ہر ایک کو چکانا پڑے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں