بھنور سے کشتی کو نکلا جائے ! 84

چلی ہے رسم کہ سر اُٹھا کے چلے !

چلی ہے رسم کہ سر اُٹھا کے چلے !

اتحادی حکومت سیاست نہیں ریاست بچانے کے دعوئے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی ،لیکن حکومت ریاست بچانے کے بجائے اپنی سیاست ہی بچانے میں لگی ہوئی ہے ، اس کے باوجود سیاست بچا پارہی ہے نہ ہی اپنی حکومت چلاپارہی ہے، اس حکومت کے ا پنے ہی اتحادی کہنے لگے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ میں حکومت کو مضبوط کرنے کیلئے تیار ہیں ،مگر وہ کچھ ڈیلور توکرے ، لیکن حکومت کچھ ڈیلور کر پارہی ہے نہ کچھ بتا پارہی ہے ،اگر کوئی خطرہ ہے تو اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کرالیے جائیں ،

اپوزیشن سے مذاکرات ہی کر لیے جائیں،صدر آصف زرداری بار ہا کہہ رہے ہیں کہ مل بیٹھ کر بات کرتے ہیں ،لیکن اس پر حکومت سنجیدگی دکھا رہی ہے نہ ہی اپوزیشن ہاتھ بڑھارہی ہے ،اگر اس محاذ آرائی میں سسٹم ڈی ریل ہو گیا تو نقصان ملک کا ہی ہو گا ۔اس ملک کے اہل سیاست کو ملک کے نقصان کا کچھ خیال ہے نہ ہی عوام کی کوئی پروا ہ ہے ، ملک عدم استحکام کا شکار ہے اور اہل سیاست دست گریبان ہیں ، عوام مہنگائی ، بے روز گاری کے ہاتھوں پر یشان حال سراپہ احتجاج ہیں ، جب کہ اس ملک کے وز اعظم عوام کی دارسی کرنے کے بجائے کہہ رہے ہیں کہ عوام کے احتجاج اور دھرنوں سے کچھ بدلنے والا نہیں ہے

، کیو نکہ اس ملک کے حکمرانوں کی تر جیحات میںعوام ہیں نہ ہی عوام کی حمایت در کار ہے ، اس لیے ہی کوئی کار کر دگی دکھائی جارہی ہے نہ ہی عوام کورلیف دی جارہی ہے ، اس حکومت کی ساری ہی توجہ اپنے مخالفین کودبانے اور لانے والوں کا ایجنڈاکامیاب بنانے پر ہی مرکوز ہے ، لیکن اس طرح زیادہ دیر تک حکومت چلے گی نہ ہی عوام چلنے دیں گے ، اس کا اظہار عوام کے شدید ردعمل کے ساتھ اپنے ہی اتحادیوں کی تنقید سے ہورہا ہے

، اتحادی بد لتی ہوائوں کے رخ کودیکھتے ہوئے بخوبی اندازہ کررہے ہیں کہ انہیں آج نہیںتو کل عوام کے پاس جانا ہی پڑے گا ،اس کے سواکوئی چارہ ہے نہ ہی آگے بڑھنے کا کوئی راستہ ہے ۔
اس حکومت نے کچھ دیر چلنا ہے اور آگے بڑھنا ہے تواپنا اختیار دکھانا ہو گا ، اپوزیشن کو اعتماد میں لا کر مل بیٹھنا ہو گا ، لیکن اس کا کوئی امکان دور تک دکھائی نہیں دیے رہا ہے ، کیو نکہ حکومت بے اختیار ہے اور اس کے پاس مذاکرات کر نے کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے ،اس لیے ہی اب تک مذاکرات کا زبانی کلامی کھیل ہی کھیلا جارہا ہے

اور اس کھیل تماشے کے پیچھے عوام کو لگاکر بے وقوف بنایا جارہا ہے ، بانی پی ٹی آئی درست کہتے ہیں کہ جن کے پاس مذاکرات کا اختیار ہے ،اُن سے ہی مذاکرات کر نے چاہیے،اس ملک کی اصل طاقت کے ساتھ ہی بات چیت کرنا سود مندر ہے گا ، اس پروزیر دفاع خوجہ آصف کا کہنا ہے کہ بات چیت ایوان میں ہی ہونی چاہیے، بانی پی ٹی آئی نئی نئی باتیں کرتے ہیں، یہ چاہتے ہیں جی ایچ کیو بات کرنے کے لیے بندہ بھیجے

، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا،پہلے نو مئی کا معاملہ کلیئر ہونا چاہیے ،اس کے بعد ہی کوئی مذاکرات ہوں گے ،اس صورتحال میں مذاکرات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتے دکھائی نہیں دیے رہا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ سیاسی محاذ آرئی میں اضافہ ہو گا اور اس کے نتیجے میں سیاسی نتشار مزید بڑھے گا ِ،جوکہ کسی کے مفاد میں بہتر نہیں ہے۔
اس وقت ملک میں انتشار کی نہیں ، مفاہمت کی ضرورت ہے ،لیکن مفاہمت کا ڈول کون ڈالے گا اور اس مفاہمت کے عمل کو آگے کون بڑھائے گا؟اس کا اختیار رکھنے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ قومی مفاد میں آگے آئیں اور سب کو ایک میز پر بٹھائیں، اس سے ہی انتشار کا خاتمہ ہو گا اور ملک میں استحکام بھی آئے گا ،

اس کے بغیر کچھ بدلے گا نہ ہی معاملات آگے چلیں گے ، یہ زور زبردستی کے فیصلے ملک میں سیاسی استحکام لاسکتے ہیں نہ ہی ملک کو دیوالیہ ہو نے سے بچاسکتے ہیں،اگر صورتحال ایسے ہی مزید چلتی رہی تو خانہ جنگی میں بدلنے کا اندیشہ ہے، لہذا ہمیں بر وقت خبردار ہونا چاہیے اور اپنے معاملات مل بیٹھ کر درست کر لینے چاہئے ،اگرمذاکرات آج نہیں تو کل ہو نے ہیں تو پھر دیری کس بات کی ہے ، کیوں ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے ، کس لیے حقائق سے نظریںچرائی جارہی ہیں ، وقت کا ضیائع کیوں کیا جارہا ہے

اور مزیدحالات کس لیے خراب کیے جارہے ہیں ؟ کیا اس ملک کے فیصلہ ساز کچھ اور ہی چاہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ اس بار ایسا کچھ ہو پائے گا نہ ہی ایسا کچھ عوام ہو نے دیں گے ، اس بار وہی کچھ ہو گا جو کہ عوام چاہیں گے اوراپنا فیصلہ بھی منوائیں گے،کیو نکہ اس بار چلی ہے رسم کہ سر اُٹھا کے چلے
نظر چراکے چلے نہ جسم و جاں بچا کے چلے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں