بھنور سے کشتی کو نکلا جائے ! 77

یہ کشیدگی لے ڈوبے گی !

یہ کشیدگی لے ڈوبے گی !

ملک میں ایک طرف سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ نہیں ہوپارہا ہے تو دوسری جانب اداروں کے درمیان کشمکش بڑھتی جارہی ہے ، ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلائے جارہے ہیں ، ایک دوسرے کو ہی مود الزام ٹہرایا جارہا ہے ،اس تصادم اور کشیدگی کے خاتمے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تمام ریاستی ادارے آئین کی من مانی تشریحات کے بجائے اس کی روح کے مطابق مکمل پابندی کریں اور اپنی ذمے داریاں آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے سر انجام دیںتو سارے اُلجھے معاملات خود بخود سلجھ سکتے ہیں،

لیکن یہاں کوئی معاملات سلجھانا چاہتا ہے نہ ہی آگے بڑھنا چاہتا ہے،ہر کوئی ایک دوسرے کو اپنی ضد و انا کی بھینٹ ہی چڑھائے چلا جارہا ہے۔اس ملک میں سارے ہی سیاست نہیں ،ریاست بچانے کے دعوئیدار ہیں ،لیکن کوئی ریاست بچانے کیلئے اپنے مفادات قربان کررہا ہے نہ ہی ایک دوسرے کے فیصلوں کا احترام کر رہا ہے ، ہر کوئی ثابت کر نے میں لگا ہے کہ وہ درست اور دوسرا غلط ہے ،جبکہ ہر کوئی اپنی حد سے نہ صرف تجاوز کررہا ہے، بلکہ اس تجاوز کو قومی مفاد کی آڑ میں اپنا آئینی حق بھی سمجھ رہا ہے،

لیکن اس سارے کھیل تماشے میں غریب عوام پس کر رہ گئے ہیںاور یہ سب کچھ اکیلئے ہی بھگتے جا رہے ہیں ،لیکن یہ سب کچھ زیادہ دیر تک چلنے والا ہے نہ ہی عوام مزید بر داشت کریں گے، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے ، عوام کی ریاست سے بیزاری بڑھتی جارہی ہے ، اس کے ذمہ دارآزمائے حکمران ہیں ،جوکہ عوام کی مرضی سے آئے ہیں نہ ہی عوام کیلئے کچھ کررہے ہیں ، یہ اپنے لانے والوں کے ہی ایجنڈ پر کام کرتے ہوئے عوام میں ا پنے لیے نفرت بڑھائے چلے جارہے ہیں۔
یہ اتحادی عوام کی حمایت سے اقتدار میں آئے ہیں نہ ہی عوام کی حمایت کے طلب گار دکھائی دیتے ہیں ، یہ جن کے سہارے اقتدار میں آئے ہیں، اس سہارے کو ہی قائم رکھنے کیلئے سر گرداں دکھائی دیتے ہیں ، عوام سے ان کا کوئی تعلق رہا ہے نہ ہی عوام کے مسائل ان کی تر جیحات میں شامل ہیں ، یہ عوام مخالف فیصلے کرکے عوام سے دور ہوتے جارہے ہیں، یہ عوام سے دور ہو ئے ہیں توآپس میںپڑنے والی دراڑیں بھی واضح ہو نے لگی ہیں،

پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اپنے تحفظات کا اظہار کر نے لگے ہیں، حکومتی معاملات شیئر نہ کر نے کا شکوہ کر نے لگے ہیں، اگر اتحادیوں کی آپس میں ہی کو آرڈی نیشن نہیں ہوگی تو حکومت کیسے چلائی جاسکے گی

اور کیسے ملک کو در پیش بحرانوں سے باہر نکلا جاسکے گا،جبکہ عوام پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ ان آزمائے حکمرانوں کے پاس قومی خزانہ لوٹنے کے علاوہ کوئی صلاحیت ہے نہ ہی ملک کو آگے لے جانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ا س آزمائی قیادت کو عوام نے بڑی ہی بری طرح مسترد کیا تھا ، لیکن ان کو ہی زبر دستی نہ صرف عوام پر مسلط کیاگیا ،بلکہ مجبور کیا جارہا ہے کہ ان کے ساتھ ہی گزارا کیا جائے ، کیو نکہ عوام کی پسندیدہ کی مقتدرہ کے پاس گنجائش ہے نہ ہی عوام کے فیصلے کو مقتدرہ ماننے کیلئے تیار ہے ،

اس کا ہی نتیجہ ہے کہ حالات بگڑتے جارہے ہیں ، عوام میں بے چینی اور اضطراب بڑھتا جارہا ہے ، اس کا سامنا کرنا حکومت کے بس کی بات ہے نہ ہی اس سے بچنے کی کوئی راہ دکھائی دیے رہی ہے،حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ عوام کورلیف دیے کر ہی اپنی مشکلات میں کمی لاء سکتی ہے،لیکن بے اختیار حکومت کچھ کر نا بھی چاہئے تو کچھ کر ہی نہیں پارہی ہے ، حکومت کو اپنا بھرم رکھنے کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا ، ملک میں سیاسی استحکام لانے کے ساتھ مہنگائی پر کسی حدتک قابو پانا ہی پڑے گا ،ورنہ مولانا فضل الرحمن کی بات درست ثابت ہو جائے گی کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی ناقص کار کردگی کے باعث حکومت زیادہ دیر برقرار رہ پائے گی نہ ہی اپوزیشن کا مقابلہ کر پائے گی۔
ملک میں ایک طرف مولانا فضل الرحمن اور بانی تحریک انصاف حکومت جانے کی باتیں کررہے ہیں تو دوسری جانب پیپلز پارٹی قیادت کا بھی کہنا ہے، اگر حکومت نہیں چل رہی ہے اور کوئی خطرات نظر آرہے ہیں تو وزیراعظم صدر کو ایڈوائس کریں اور اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کرا لیں، حکومت اپنے اتحادیوں سے کچھ شیئر کررہی ہے

نہ ہی کچھ ڈیلیور کر پارہی ہے، اس طرح معاملات زیادہ دیرتک نہیںچلائے جاسکتے ہیں،پیپلزپارٹی آئینی بالادستی پریقین رکھتی ہے اورہر مسلئے کاحل بھی آئین کے مطابق ہی نکالنا چاہتی ہے ، اس طرح سسٹم ڈی ریل ہوگا نہ ہی ملک کو کوئی نقصان پہنچے گا،دوسری صورت میں سب کچھ ہی ہاتھ سے نکل جائے گا۔
ملک عزیز،جو پہلے ہی پے در پے بحرانوں میں گھیرا ہے ، مزید کسی نئے بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے،اس کے باوجود ایک کے بعد ایک نئے بحران کو نہ صرف دعوت دی جارہی ہے ، بلکہ اس میں ایک دوسرے کو جان بوجھ کر دھکیلا جارہا ہے ، ہر ایک کو ایک دوسرے کے مد مقابل لایا جارہا ہے ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ریاستی ستونوں میں تصادم کے دوررس منفی اثرات مر تب ہوتے ہیں،اداروں میں محاذ آرئی کو ہوا دی جارہی ہے ،

اس محاذ آرائی کا قومی مفاد کے پیش نظر خاتمہ ہونا چاہیے، ہر ایک کو اپنی حدود میں رہنا چاہئے اور اپنے دائرہ اختیار میںرہتے ہوئے اپنا کام کر نا چاہئے ، اگرمعاملات الجھنے لگیں تو مل بیٹھ کر سلجھا لینے چاہئے ، اگر کوئی راہ دکھائی نہ دیے تو کوئی راہ نکال لینی چاہئے،ورنہ اداروں میں کشیدگی لے ڈوبے گی اور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ، سارے ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں