کل ماضی کا محبت بھرا رکشا بندھن اور آج کے سنگھی منافرتی ہندو تہوار 95

“الکفار لااعتبار” کافر و مشرک بھروسہ لائق نہیں ہوتے ہیں

“الکفار لااعتبار” کافر و مشرک بھروسہ لائق نہیں ہوتے ہیں

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

اسکا مطلب یہ نہیں کہ سب کے سب کافر و مشرکین بھروسے کے قابل نہیں ہوتے ہیں اور سب کے سب مسلمان لیڈران قابل بھروسہ ہوتے ہیں۔ ہر معاشرے میں اچھے اور برے لوگوں کا ہونا فطری عمل ہے۔جہاں ہم مسلمانوں میں میر صادق اور میر جعفر جیسے چند روپئوں،حکومتی مناصب، جاہ و حشمت کے لئے، مسلم مفاد کے خلاف جاتے پائے جاتے ہیں بالکل ویسا ہی ھندو اقوام میں بھی،بہت زیادہ تعداد میں اچھے لوگ پائے جاتے ہیں خصوصاً اس دس سالہ سنگھی مودی یوگی نازی ڈکٹیرانہ رام راجیہ میں، مسلم مفاد میں، ہم مسلمانوں سے زیادہ سیکیولر ٹائپ ھندوؤں نے ہی مسلم مفاد میں کھل کر آوازیں اٹھائی ہیں

اسکے لئے ہمیں انکا شکریہ ادا کرتے رہنا چاہئیے۔آج کے اس منافرت آمیز ماحول میں چودہ سو سال قبل کے خلیفہ راشد ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے مخلص، بے لوٹ عوامی خدمت کرنے والے لیڈران کو، ہم مسلمان اپنے مسلم صفحوں میں بھی ٹارچ لیکر ڈھونڈیں گے تو ویسے مخلص لیڈران کا ملنا نہ صرف محال بالکہ ناممکن سا ہے لیکن ہم میں جو بھی اچھے برے لیڈران موجود ہیں

ان میں اچھے سے اچھے یا بروں اور چوروں میں سے کم سے کم برے اور چھوٹے سے چھوٹے چور اچکے کو، اپنے لیڈر کے طور چننا پڑیگا ورنہ اپنے دور کے سب سے تیز رفتار ترقی پزیر 2014 سے پہلے والے کانگرئس سرکار اچھے بھلے من موہن سنگھ کو،درکنار کر،اچھے دن کے سہانے مگر جھوٹےسپنے دکھانے والے مودی مہان کو لاکر، اپنا سب کچھ کھودہتے ہوئے، مہنگائی کے مارے نوکریوں کے متلاشی بھکمری کی ڈگر پر پہنچے بھارت واسیوں کی طرح ہمیں ہونا پڑیگا۔ اس لئے عام انتخاب کے وقت کسی بھی قیمت پر اہنے قیمتی ووٹوں کا استعمال ضروری ہے۔ جو بھی بھارت کا باشندہ چاہے

وہ کتنا بھی بڑا دین دار اور بزرگ کیوں نہ ہو، اگر اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کرتا یے تو، اسے ہم مسلمانوں یا انسانیت کی بھلائی ہی کے لئے کچھ بولنے کا حق نہیں ہے۔ وہ لوگ ایسے ہی ہیں جیسے پرانے انباء کرام کے زمانے ۔یں خود تو خوب ذکر واذکار اچھے کام کرتے تھے۔لیکن عام انسانیت کو دعوت الی اللہ نہ دئیے جانے کی وجہ سے، عذاب الہی آتے وقت سب سے پہلے عذاب کے شکار بنائے گئے تھے۔ کسی کی نیتوں میں، بے ایمانی کو سمجھنے کے لئے، انکے سابقہ ریکارڈ کو کنگھالنا پڑتا ہے۔ سابقہ دس سالہ مودی یوگی سنگھی، بی جے پی آر ایس ایس، مجوزہ رام راجیہ کے انکے قوانین اور انکے قول و عمل کو دیکھا اور پرکھا جائے تو وہ بس دکھانے کو تو ویجیٹیرین ہاتھی کے قیمتی اور خوبصورت دانت دکھاتے ہیں

اور سامنے والا ان پر بھروسہ کرتا ہے تو یہ سنگھی، انہیں اپنے درندہ صفت شیر بھیڑیے اور کتوں والے تیز دانتوں سے، کاٹ کاٹ کھاجائے جیسا، تباہ و برباد کر چھوڑ دیتے ہیں۔ایسے میں یہ سنگھی مودی یوگی یا بی جے پی آرایس ایس سے جڑا کوئی بھی شخص اب ہم بھارتیہ مسلمانوں کے لئے قابل قبول ہی نہیں رہا ہے۔ رہی بات مسلم اوقاف زمینوں کی تو، یہ کوئی سرکاری ملکیت نہیں ہے جو ہم مسلمانوں نے، زبردستی قبضہ جمائے آپنی تحویل میں رکھی ہے۔ بلکہ بھارت کے ہم مسلمانوں کے اباء و اجداد نے،اپنے محنت کی کمائی سے اسے حاصل کئے، اپنی مرضی سے ہم مسلم باشندگان ھند کی تعلیمی و معشیتی ترقی کے لئے، وقف کی ہوئی ملکیت ہے۔ یہ ملکیت ایسی ہی ہے جو بھارت کے بہت بڑے بڑے مندر جیسے تروپتی بالاجی مندر، میناکشی مندر، جگناتھ مندر، بردھا دیشور مندر,امرناتھ مندر،

ستیہ سائی مندر، تیروونگنم رنگا سوامی مندر ،بدری ناتھ مندر، کادرناتھ مندر، سنہرا گولڈن مندر پنجاب، وشنو دیوی مندر،پربھادیوی مندر، اکشردھام مندر،چتر دھام مندر، دوارکا پوری اور رامیشورم مندر اور ان جیسے ھندوؤں کے ہزاروں مندروں والی کئی لاکھ کروڑ کی ملکیت نگرانی پر بھی سیکیولزم کے نام سے مسلمانوں کو بھی ان مندر ٹرسٹیوں میں شامل کیا جائے جیسے کے بد نیتی کے ساتھ، سنگھی مودی حکومت نے، مسلم اوقاف ملکیت ٹرسٹ میں، سیکیولرزم کے نام سے، ھندو بھائیوں کو مسلم ٹرسٹ اوقاف میں زبردستی داخل کرنے والا آؤقاف ٹرسٹ ترمیم بل حالیہ بجٹ سیشن میں پارلیمنٹ میں پیش کردیا تھا۔

یہ تو اللہ کا بڑا فضل و کرم ہوا،2024 عام انتخاب میں، مسلم اکثریتی ووٹوں کے یک طرفہ بی جے کے خلاف کانگرئس کے حق میں جانے سے، کانگرئس پارٹی پہلے کے مقابلے طاقتور اپوزیشن کی حیثیت پارلیمنٹ میں موجود ہے۔اور کانگریس نے بھی اپنی ذمہ داری خوب تر نبھاتے ہوئے،اوقاف ترمیم بل پاس ہونے نہیں دیا ہے۔ اس معاملے کو دیکھتے ہوئے بھارت کے کل آبادی کے بیس فیصد کم و بیش تیس کروڑ ہم مسلمانوں کو، مختلف نام نہاد سیکیولر ووٹوں میں بٹ کر یا بانٹ دئیےجاتے آپنی حیثیت و وقعت کو کھوتے ووٹوں کو، کانگرئس پارٹی ذمہ داروں سے باہم مشورے سے، گفت و شنید مول بھاؤ کرکے، یکمشت مسلم ووٹ کو کانگرئس پارٹی کے حق میں دیتے ہوئے، مسلم مفاد مخالف کوئی بھی قدم کسی کو بھی لینے نہیں دینا چاہئیے۔

اس کے لئے ہم مسلمانوں میں یا مسلم لیڈرشپ میں محبت اخوت بھائی چارگی اتفاق ہونا ضروری ہے۔ اور اگر ہم میں سے کسی بھی مسلم لیڈر کو ہم اپنے مسلم مفاد کے خلاف جاتا پاتے ہیں تو، ہمیں ہر قیمت پر میر جعفر میر صادق جیسے ہمارے درمیان موجود سیاسی لیڈروں کو، بے نقاب کئے مسلم معاشرے میں انہیں بدنام کئے دوبارہ سیاست میں سر اٹھانے لائق نہیں چھوڑنا چاہئیے۔ ہمارے درمیان صوم و صلواہ کے پابند تہجد گزآر شخصیت اسدالدین اویسی جیسی مخلص لیڈرشب کو، جو اپنے بل پر، اتنا بڑا اور اہم مقام بھارتیہ سیاست میں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں،خواہ مخواہ انہیں بھی، بی جے پی کی بی ٹیم قرار دئیے،

انہیں بھی، میر جعفر میر صادق کی صفحوں میں زبردستی ڈالے، ہم گویا اولاً اپنے درمیان موجود یا اپنے بل پر مقام حاصل کئے مسلم لیڈرشب کو، کمزور و ناتواں کئے، خود اپنا یعنی مسلم امہ کا دانستہ نقصان کررہے ہیں تو دوسری طرف ہم مسلمانوں میں، پہلے سے موجود میر صادق و میر جعفر جیسے کرپٹ، بے ایمان لیڈروں کو، بچانے کی ناکام کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ ہمارے درمیان اتفاق یکجہتی ہی ہمیں سرخرو رکھ سکتی ہے۔وماالتوفئق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں