67

سارا بوجھ عوام پر ہی کیوں؟

سارا بوجھ عوام پر ہی کیوں؟

ملک بھر میں بڑھتی مہنگائی اور بے روز گاری کے مارے عوام کا براحال ہے ،لیکن حکومت اپنے اخراجات میں کوئی کمی لارہی ہے نہ ہی اپنے حواریوں کی عیاشیاں بندکرواپارہی ہے ، حکومتی اجلاس وںمیں متعدد بار سننے کو ملتا ہے کہ حکومت اپنے سائز کو مناسب حد تک نہ صرف کم کررہی ہے ،

بلکہ قو می خزانہ پر سے بھی اضافی بو جھ ہٹانے کی پوری کوشش کررہی ہے ، گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی ہے کہ جوادارے خزانے پر بوجھ ہیں، انہیں فوری طورپر ختم کیاجائے یا ان کی نجکاری کیلئے فوری اقدامات کیے جائیں،مگر سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں عملی قدم کب اٹھایا جائے گااور کب قومی خزانے کے ساتھ عوام کے ناںتواں کندھوں پر سے بھی سے سارابوجھ ہٹا یا جائے گا ؟
اتحادی حکومت جب سے آئی ہے ،اپنے بڑے دعوئے پورے کر پارہی ہے نہ ہی عوام کو رلیف دیے پارہی ہے ، اس حکومت کے پاس کوئی پلان ہے نہ ہی کو ئی نیا منصوبہ بنانے کی اہلیت رکھتی ہے ، حکومت ڈنگ ٹپائو پروگرام کے تحت ہی چلائی جارہی ہے ، اس کا ہی نتیجہ ہے کہ کئی محکمے اور سرکاری دفاتر کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے ،مگر قومی وسائل کیلئے غیر معمولی بوجھ بنے ہوئے ہیں،

حکومت ان کی کار کر دگی بہتربناپارہی ہے نہ ہی انہیں بند کررپارہی ہے، کیو نکہ اس سے ہر سیاسی حکومت کے مفادات وابستہ رہے ہیں ،اس لیے ان کی تجدید و تطہیرمیں لیت و لعل سے کام لیا جارہاہے، مگر اس بھاری پتھر کو اب اٹھائے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا ہے، ملک کے معاشی وسائل کے دامن میں اتنی گنجائش رہی ہے نہ ہی عوام میں اتنی سکت باقی رہی ہے کہ حکومت کا سارا بوجھ خاموشی سے اُٹھاتے چلے جائیں گے۔
اس وقت سب کچھ ہی بڑی تیزی سے بدل رہا ہے اور اس بد لتے وقت کے ساتھ چلے بغیر آگے بڑھا جاسکتاہے نہ ہی اپنے حالات کو بدلا جاسکتا ہے ، ہمیں اپنے محکموں اور سرکاری اداروں کے طریقہ کار کے ساتھ اپنے روئیوں میں بھی جامع تبدلیاں لانا ہو ں گی، وزیراعظم نے قومی وسائل پر بوجھ کی اصطلاح کا برمحل استعمال کرتے رہتے ہیں ،لیکن اگر ہمارے اکثر سرکاری اداروں کے طریقہ کار اور کارکردگی کو جانچا جائے

تو انہیں سرکاری خزانے پر بوجھ کہنا بے جا نہیں ہے، یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ اداروں کے حجم اور کام کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جائے اور انہیں جد ید طر یقہ کار میں ڈھالا جائے، ہمارے پی آئی اے اور سٹیل ملز جیسے بڑے قومی اداروں کی ناکامی بلا وجہ نہیں ہوئی ہے، ایک وقت تھا کہ جب پی آئی اے سرفہرست ائیر لائن تھی اورسٹیل ملز بھی منافع بخش جارہی تھی، لیکن یہ دونوں ہی ادارے اب ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ چکے ہیںاور قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں، اس ادارتی تباہی و بر بادی میں ادارتی انتظامیہ کے ساتھ ہر حکومت کی نااہلیوں کا بھی بڑا ہاتھ رہا ہے ۔
اتحادی حکومت پہلی بار آئی ہے

نہ ہی قومی مسائل سے نا آشنا ہے ، حکومت سب کچھ جانتی ہے ،مگر اس کا تدرک کر پارہی ہے نہ ہی معاملات سلجھا پارہی ہے ، اس حکومت کو اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرنا چاہئے اور دیگر اداروں اور محکموں کی کارکردگی پر بروقت توجہ دینی چاہئے، ہر ادارے میں جہاں پر جو تبدیلیاں ناگزیر ہیں‘ فوری طور پرکی جانی چاہئیںاور لی اس میںلت و لعل سے کام نہیں لینا چاہئے، اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد بہت سے محکمے جو صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں، وفاقی سطح پر ان کے باقیات کو برقرار رکھنے کا کوئی جواز ہی نہیں رہا ہے ،

لیکن اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر رکھا جارہا ہے ،اگران اداروں کوبند کر دیا جائے یا‘ نجکاری کردی جائے توحکومتی حجم میں خاصی کمی آ سکتی ہے، لیکن حکومت اعلانات کے باوجود کوئی عملی اقدام کر پارہی ہے نہ ہی بتا پارہی ہے کہ اس میں روکاوٹ کیوں آرہی ہے؟اگر اتحادی حکومت کچھ کر نا چاہئے تو اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ، لیکن یہ اتحادیوں کی نیت کا ہی فتور ہے کہ جانتے بوجھتے ہوئے گریز کیا جارہا ہے ،

اس تحادی حکومت کے پچھلے دور میں وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک پندرہ رکنی کفایت شعاری کمیٹی تشکیل دی تھی ،اس نے اپنی سفارشات مرتب کرپیش بھی کر دی تھیں، اس کمیٹی نے کیا تجویز کیااوران تجاویز پر کس حد تک عمل ہوا ہے ، اس کا کچھ پتا ہے نہ ہی اس کے متعلق پو چھا جارہا ہے ،وزیر اعظم کفایت شعاری کی باتیں کرتے رہتے ہیں ، حکومتی اخرات میں کمی لانے کا عہد بھی کرتے رہتے ہیں اور قومی خزانے پر ادارتی بوجھ ختم کر نے کے اعلانات بھی کرتے رہتے ہیں، لیکن اس سب پر کہیں عمل ہورہا ہے

نہ ہی عوام پر سے اضافی بوجھ کہیں کم ہوتا دکھائی دیے رہا ہے ، اب بھی وقت ہے، اگر حکمران واقعی ملک و عوام کو بد حالی کی دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں اور اپنی ساکھ بحال کر نا چاہتے ہیں تو ہربوجھ ہی عوام پر ڈالنے کے بجائے اپنی جہازی سائز کابینہ کا فوری حجم کم کریں، اپنے غیر ضروری اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی لائیں،اپنے حواریوں کی عیاشیاں بند کر وائیں، ورنہ اس سارے بوجھ تلے عوام تو سسک رہے ہیں، مگر یہ آزمائے حکمران بھی بچ نہیں پائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں