86

ایک بار پھر مذاکرات کی بازگشت !

ایک بار پھر مذاکرات کی بازگشت !

ملک میں ایک بار پھر مذاکرات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ، ایک بار پھر حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں مذاکرات پر بحث ہورہی ہے کہ کون کس سے مذاکرات کیوں کر نا چاہتا ہے ؟ لیکن مذاکرات ضرور ہو نے چاہئے،ملک میںسیاسی تنائوکے خاتمے کے لیے مذاکرات سے بہتر کوئی راستہ نہیں ،لیکن اس بات پر ابھی تک کوئی وضاحت نہیں ہو پائی ہے کہ ان مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہو گا اور فریق کون ہوں گے ؟یہ ایجنڈا جب تک طے نہیں ہو گا‘ مذاکرات کی بازگشت کے باوجود مذاکرات کا معاملہ کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟
اگر دیکھا جائے تو اس وقت مذاکرات حکومت اور اپوزیشن کی ضرورت ہیں ، لیکن دونوں ہی ایک دوسرے سے مذاکرات کر نا چاہتے ہیں نہ ہی ایک دوسرے کو قبول کر نے کیلئے تیار ہیں ، وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے بجائے مقتدارہ سے مذاکرات کی خواہاں ہے ، کیو نکہ مقتدرہ کی گود میں پھولے پھلے ہیں ، اس لیے ان سے ہی این آراو مانگ رہے ہیں ، لیکن تحریک انصاف قیادت جب تک نوں مئی پر معافی نہیں مانگے گی ،اس سے مذاکرات نہیںہوں گے ، اس کے جواب میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا کہنا ہے

کہ ایک دوسرے کوطعنہ نہ د یںکہ کون کس کی گود میں پلاہے ؟ اس وقت ملک بحران کا شکار ہے، اس کوبحرانوںسے نکالنے کی کوشش کر نی چاہئے، ہم مقتدرہ سمیت سب سے ہی مذاکرات کے لیے تیار ہیں، آئیں آرمی چیف سمیت سب ملکر بیٹھیںاورآئین کے اندر آگے بڑھنے کا کوئی راستہ تلاش کریں ،اس میں ہی سب کی بہتری ہے۔
تحریک انصاف نے اپنی اتحادی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے سربراہ بنایا ہے، محمود خان اچکزئی سینئر سیاستدان ہیں اوران کے حکومت کی اتحادی جماعتوںکے ساتھ قریبی مراسم رہے ہیں، اس لیے بخوبی سیاسی انداز سے معاملات کو حل کر سکتے ہیں، اس حوالے سے اپوزیشن و حکومت کی مذاکراتی کمیٹیوں کے ابتدائی روابط بھی ہوئے ہیں‘

شنید ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کہا ہے کہ انہیں محمود خان اچکزئی پر کوئی اعتراض نہیں ہے ، لیکن پی ٹی آئی کا معاملہ محمود اچکزئی کے ساتھ کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟ اس کامطلب ہے کہ حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کر نا چاہتی ہے ، جبکہ پی ٹی آئی حکومت کو بے اختیار سمجھتی ہے ،اس لیے با اختیار لوگوں سے ہی معاملات طے کر نا چاہتی ہے ، اگرچہ براہِ راست مذاکرات ہی مسئلے کا حل ہیں‘لیکن اس کیلئے حکومت کو مذاکرات کر نے کا اختیار تو با اختیار سے لینا ہی پڑے گا۔
یہ بات سب ہی جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ حکومت بے اختیار ہے ،اس لیے ہی اتحادیوں کا کوئی بیانیہ چل رہا ہے نہ ہی ان کی باتوں پرکوئی یقین کررہا ہیں ، یہ عوام کے بار ہا آزمائے ہوئے ہیں ، اس لیے عوام کی حمایت سے آئے ہیں نہ ہی عوام میں ان کی کوئی ساکھ ہے ، یہ عوام کے مسترد کردہ لوگ ہیں اور زبر دستی عوام پر مسلط کیے گئے ہیں ، عوام ان سے چھٹکارہ چاہتے ہیں ، لیکن عوام کی رائے کا احترام کیا جارہا ہے

نہ ہی عوام کا فیصلہ مانا جارہا ہے ، اس کے باعث ہی ایک کے بعد ایک بحران بڑھتا چلا جارہا ہے ،اگر اس بحرانی کیفیت سے نکلنا ہے تو عوام کے فیصلے کا احترام کر نا ہو گا اور ایک میز پر مل بیٹھ کر اپنی کو تاہیوں کا ازالہ کر نا ہو گا ، انتقامی سیاست کو خیر باد کہتے ہوئے مفاہمت کی سیاست کو فروغ دینا ہو گا اور مکالمے کے ذریعے باہمی مشاورت سے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ تلاش کر نا ہو گا ،اس کے بغیر حکومت زیادہ دیر تک چل پائے گی نہ ہی اپوزیشن مزید سختیاں بر داشت کر پائے گی، اس کے بعد دمادم مست قلندر ہی ہو گا ،جوکہ ملک کوکسی بڑے انتشار سے دوچار کر سکتا ہے ۔
اس وقت ملک کسی بڑے انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا ، اس کے باوجود انتشار کی جانب ہی دھکیلا جارہا ہے ، اس کا کس کو فائدہ ہورہا ہے اور کون اسے ہوا دیے رہا ہے ، اس بارے جا ننا ہو گا اور اس کا سد باب بھی کر نا ہو گا ، لیکن اس سے قبل اپنے معالات کو مل بیٹھ کرحل کر نا ہو گا ، اس کیلئے طاقتور حلقوں کو اپنا کر دار ادا کر نا ہو گا ، اپنے لوگوں کو اہل سیاست کے ساتھ بٹھانا ہو گااور ایک روڈ میپ بنانا ہو گا ، تاکہ ہر سال دوسال بعدایک دوسرے کو گرانے اور آزمائے کو ہی دوبارہ آزمانے کاسلسلہ روکا جاسکے ، اگر اس بار بھی ایسا نہ کیا گیا اور ڈنگ ٹپائو پروگرام کے تحت مذاکرات کے نام پر این آر او کر لیا گیا تو ہمیشہ کی طرح کچھ حاصل نہیں ہو پائے گا ، ملک آگے بڑھ پائے گا نہ ہی عوام خو شحال ہو پائیں گے اور نام نہاد جمہوریت بھی آمریت کی ہی لونڈی بنی رہے گی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں