سر مائیکل باربر اور ہمارا نظامِ تعلیم
تحریر: طاہر محمود آسی
گذشتہ دنوں ملک کے تمام اخبارات اور سوشل میڈیا نے اس خبر کی تشہیر نہایت زبردست طریقے سے کی کہ پنجاب میں ارلی چائلڈ ایجوکیشن کے ایک انگریز ماہر تعلیم سر مائیکل باربر نظام تعلیم کو بہتر اور فعال بنانے کے لیے پاکستان ائیں گے، پنجاب حکومت کا اعلی سطح پر ان سے مختلف میٹنگز میں رابطہ ہو چکا ہے
اکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھے لکھے ہیں نیشنل کریکلم پر گہری نظر رکھتے ہیں پنجابی معیاری تعلیم کی ترویج کے لیے کروڑوں روپے سے ان کو کرائے پر لینے کے انتظامات شروع ہو چکے ہیں محترم شہباز شریف کی وزیراعلی میں بھی سر مائیکل باربر کافی متحرک تھے اسی نسبت اور تعلق داری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محترمہ مریم نواز صاحبہ اور وزرائے کرام سر مائیکل باربر کی تعریفات کے پل باندھے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں
معزز قارئین ! اس میں کوئی شک نہیں مائیکل بار بار نہایت بندے ہوئے ماہر تعلیم ہیں 60 سے زائد ممالک میں ارلی چائلڈ ایجوکیشن پر کام کر چکے ہیں کئی تنظیموں کے سربراہ ہیں وسیع تجربے کے مالک ہیں ڈلیوری ایسوسی ایٹ کے بانی اور چیئرمین بھی ہیں مگر ہماری تعلیمی صورتحال سے بالکل ناواقف ہیں ، کرونا Covid19 میں ان کی خدمات جو کہ اور دیگر ممالک میں قابل تعریف ہیں اچھے پالیسی ساز ہیں مگر سوچنا یہ ہوگا کہ ہمارے پنجاب کے لیے کتنے کارگر ہیں پالیسیاں گراؤنڈ ریلٹیز کے مطابق نہ ہوں تو فیل ہو جایا کرتی ہیں
اور ملکوں ملت کو بے تحاشہ نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے ، گزشتہ کئی دہائیوں سے محکمہ تعلیم میں تعلیمی ادارے تجربہ گاہ بنے ہوئے ہیں ہر نئی انے والی حکومت اپنی نئی پالیسیوں کے ساتھ کام شروع کرتی ہے ، گزشتہ حکومت کے اچھے کاموں کو بھی نفرت کی نظر کر دیا جاتا ہے اور تسلسل ٹوٹ جاتا ہے افرادی قوت کا اثر اور مال وصول ضائع ہو جاتے ہیں ، ملکی معیشت کو خاصہ دھچکا لگتا ہے
خیر پاکستان کی کشتی عرصہ دراز سے اناؤں کے باور میں پھنسی ہوئی ہے بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ تعلیمی عمل پریشانیوں کا شکار ہے کئی تعلیمی منصوبے ا چکے ہیں مگر نہ امیدی اور افرا تفریح کی فضا جس قدر اج محسوس ہو رہی ہے پہلے کبھی نہیں تھی، ابتدائی تعلیم کبھی بم ارلی چائلڈ ایجوکیشن کے لیے ہر حکومت کچھ نہ کچھ کرنا چاہتی ہے مگر جب یہ منصوبے سیاست دانوں اور فراڈیوں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں تو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے
قارئین کرام!
ہم گزشتہ 70 سالوں سے کوئی متفقہ نصاب تعلیم رائج کرنے کے قابل نہیں ہو سکے ہیں اس میں قصور کس کا ہے ہر کسی کو پتہ ہے اور وہ لوگ جو بچوں کے مستقبل سے کھیلتے ہیں بے شمار کہ حقدار ہیں، بقول شاعر
ہمت کرو جوانو! کشتی بھنور سے نکلے
ایسا نہ ہو کہ بلبل روتا چمن سے نکلے
قارئین کرام! ہم بات کرتے ہیں امام غزالی، ابن خلدون، سر سید، اقبال اور قائدا اعظم کی مگر عمل پیرائی میں زیرو ہیں ، کاوش اور جہد کے معاملے میں بالکل نکھٹو ہیں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں حکومت وقت ذرا سوچ اور ہوش کے ناخن لے تو کیا ہم میں کوئی مائیکل باربر موجود نہیں ہے ؟ ؟ ہمارا تعلیمی نظام ایم فل اور پی ایچ ڈیز کو صرف الاؤنس دینے کی حد تک محدود ہو چکا ہے کیا ہمارے ہاں ایم فل اور پی ایچ ڈیز سب کے سب شیدا، میدا، مجیدہ اور مختاریہ کی فہرست میں آتے ہیں ؟
اگر ایسا ہے تو ہائر ایجوکیشن کمیشن کیا کر رہا ہے افسوس صد افسوس کہ ہماری سب پالیسیاں وہ لوگ بناتے ہیں جن کو گراؤنڈ ریلٹیز کا بالکل علم نہیں ہوتا ہے ، یہ بات بالکل سچ ہے کہ ہمارا سسٹم مافیاز کی دسترس میں ہے جس طرف اور جس طرح وہ چاہے گا اس کی طرح ہوگا ، سب کچھ تقریروں اور تحریروں میں کہا اور لکھا جاتا ہے مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہیں ہوتا ہے صرف نعرے ہی نعرے ہیں جو ہم لگائے جا رہے ہیں
، ماضی کی طرف نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ تعلیمی نظام کے ساتھ کیسا کیسا کھلواڑ ہو رہا ہے کبھی پرائمری نظام اے ای اوز، کبھی ہائی سکولوں کے ہیڈ ماسٹرز اور کبھی مڈل سکولوں کے ہیڈز کے سپرد کیا گیا مگر نتیجہ صفر جمع صفر برابر صفر ہی رہا، کبھی نصاب تعلیم کو انگلش کبھی اردو میں کر کے دیکھ لیا کامیابی نہیں مل سکی ہے ، کبھی نجکاری اور کبھی شجرکاری کا لبادہ اوڑھ کر ملکی خزانے کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا
بلکہ قومی خزانے کو بے رحمانہ انداز کے ساتھ لوٹا گیا ہے ایسے ماحول میں ایک پی ایچ ڈی اور ایم فل ٹیچر کیا کرے گا ؟ پرائیویٹ اداروں کی بڑھتی ہوئی فیسوں کو والدین برداشت کرتے ہوئے یہ برملا کہتے ہوئے نظر اتے ہیں کہ اس ملک کے تعلیمی نظام کا اللہ ہی حافظ ہے ویسے تو پورے پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے مگر تعلیمی ڈھانچہ گرتی ہوئی دیوار کو ایک جھٹکا اور دو کا متقاضی ہو چکا ہے ، ہزاروں ٹیچرز کی اسامیاں خالی ہیں بھرتی بند ہے بلکہ محکمہ خزانہ کے پاس تنخواہوں کے لیے بجٹ ناپید ہے سکولوں کی ہیڈز کی بے شمار اسامیاں خالی ہیں مگر دودھ پلانے کے لیے عربوں کا بجٹ لایا جا رہا ہے
محکمہ خستہ حالی کا شکار ہے سکولوں کی عمارتیں گر رہی ہیں لیکن دودھ پلانے اور کھانے پینے کے لیے30 سے 35 ارب روپے خرچ کرنے کی مہم زور و شور پکڑ رہی ہے یہ سچ ہے کہ ہمارے پچھلے حکمرانوں نے تعلیم کے لیے کچھ نہیں کیا لیکن وزیراعلی صاحبہ بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہیں جوکہ نہایت نیک شگون عمل ہے ، میاں شہباز شریف نے امتحانی نظام کو درست کرنے کے لیے جو اقدامات اٹھائے تھے وہ بہت قابل تحسین ہیں
پورا پاکستان اس کا محترف ہے محترمہ مریم نواز صاحبہ سے بھی ایسے ہی کسی کام کی توقع رکھتے ہیں سکولوں کو بیچ کر عربوں کا منافہ حاصل کرنے کی سوچ کو تبدیل کر کے اساتذہ کے اندر پیدا ہونے والی بے قراری کو ختم کیا جانا چاہیے، تعلیم برائے فروخت کا فارمولا کچھ اچھا تاثر نہیں دیتا ہے انہیں اساتذہ کو با سہولت کر کے تعلیمی نظام میں تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں مگر کچھ علم نہیں ہے کہ کیا کچھ ہوگا ؟؟
اب ارلی چائلڈ ایجوکیشن کے لیے سر مائیکل باربر کی خدمات حاصل کرنے کا مطلب یہی ہوگا کہ ہمارے پیارے پاکستان میں کوئی ایم فل پی ایچ ڈی یا ماہر تعلیم ہمارے ارلی چائلڈ ایجوکیشن سسٹم کو درست کرنے کے قابل نہیں ہے بلکہ ہمارے ماہرین تعلیم اور پی ایچ ڈیز کے پلے کچھ نہیں ہے اور اگر ان کے پلے کچھ نہیں ہے تو کس چیز کا الاؤنس حاصل کر رہے ہیں ؟
قارئین کرام ! میرا بطور استاد اس بات پر سر تسلیم خم ہے کہ ہمارے بچوں کو نہ قومی ترانہ اتا ہے اور نہ ہی دعا اتی ہے یہ ابتدائی سطح کا نتیجہ نہیں بلکہ بھائی اور کالجز کی سطح کا نتیجہ ہے ، قومی ترانے کا مطلب اگر اس قوم کے بچوں کو نہیں اتا ہے تو ہمارے نظام تعلیم پر ایک تماچہ ہے دودھ پلانے سے عین ممکن ہے کہ بچوں کا دماغ تیز ہو جائے، پنجاب حکومت ضرور مائیکل باربر کو نظام تعلیم درست کرنے کے لیے بلائے مگر اپنی پی ایچ ڈیز کی بھی اعلی سطحی کلاس لے کیونکہ ہمیں خوبیاں کم اور خامیاں زیادہ ہیں نہ جانے کون سا ڈاکٹر ان بیماریوں کا علاج کرے گا،، بقول
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
اخر اس درد کی دوا کیا ہے
قارئین کرام! لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان دنیا میں اسلحہ خریدنے والا 10واں بڑا ملک ہے جبکہ تعلیم پر خرچ کرنے کے لحاظ سے 177 ویں نمبر پر ہے اور شرح خاندگی کے لحاظ سے 162 ویں نمبر پر آتا ہے
غور کرو حکمرانوں تم مائیکل باربر کی بات کر رہے ہو دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم پیچھے کی جانب جا رہے ہیں ہماری ترقی کا پہیہ الٹا گھوم رہا ہے ، یا الہی! کرم فرما ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں، کسی نے خوب کہا کہ
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی