61

کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟

کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟

پاکستان مختلف شعبوں میں غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے اور دنیا میں اپنے وسائل اور صلاحیت کے پیش نظر اپنا جائز مقام حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کے آڑے ملک دشمن قوتیں آرہی ہیں اور عوام میںمایوسی پھلارہی ہیں ،اس پر آرمی چیف کا کہنا ہے کہ میں نے ایک سال پہلے کہا تھا کہ مایوس مت ہونا ،کبھی اُمید کا دامن نہ چھوڑنا، کیو نکہ نا اُمیدی اورمایوسی گناہ ہے ، وہ عناصر جو معاشرے میں مایوسی پھیلانے کی کوششیں کر تے رہے ہیں،آج تمام سٹیک ہولڈرز کی اجتماعی کوششوں سے شکست کھا چکے ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ کسی حدتک درست ہے کہ گزشتہ دو‘ اڑھائی برسوں کے دوران ملک کی معاشی صورتحال کو لے کر عوام کافی مایوسی کا شکار رہے ہیں، لیکن اس وقت ریاستی اداروں کی مسلسل کاوشوں سے ملکی معیشت مجموعی طور پر کسی حدتک ایک امید افزا صورتحال پیش کر رہی ہے، کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں فچ اور موڈیز کی جانب سے بھی ریٹنگ اَپ گریڈ کی گئی ہے ،جو کہ مثبت معاشی اشاریوں کا ایک اعتراف ہے،لیکن یہ اشارے ایسے ہی مثبت آتے رہیں گے ، اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا ، کیو نکہ حکومت کی تر جیحات میں ملک کی خو شحالی ہے نہ ہی کہیں عوام دکھائی دیتے ہیں ، اس کی تر جیحات میں اپنے مخالف کو راستے سے ہٹانے کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔
ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ ملک میں کوئی استحکام بھی سیاسی استحکام کے بغیر نہیں آسکتا ہے ، لیکن ملک میں سیاسی استحکام لانے کے بجائے مزید عدم استحکام ہی پیدا کیا جارہا ہے ، عوام کو حق رائے دہی کی آزادی دی جارہی ہے نہ ہی اظہارے رائے کا حق دیا جارہا ہے ، ہراُٹھنے والی آواز کو دبایا جارہا ہے، اپنے مخالف کو دیوار سے لگایا جارہا ہے ،اپنے راستے سے ہٹا یا جارہا ہے ، اس پر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا بالکل بجاہے کہ اگر عوام سے اظہارے رائے اور احتجاج کاحق چھینے گے تو پھر انتشار ہی پیدا ہو گا ، جو کہ کسی کے مفاد میں بہتر نہیں ہے ، اگرملک میں انتشار کے بجائے استحکام لا نا ہے تو سب کو ہی دوقدم پیچھے ہٹتے ہوئے مل بیٹھنا ہو گا اور اپنے سارے اُلجھے معاملات کو سلجھانا ہو گا ، اس کے بغیر سارے معاشی خوشحالی کے مثبت اشارے دیر پا نہیں رہیں گے۔
اس ملک میں جو بھی حکومت آئی ہے ، اس کے ساتھ مقتدرہ نہ صرف ایک پیج پر رہی ہے ، بلکہ اس کو لانے اور چلانے میں بھی اہم کر دار ادا کر تی رہی ہے ، اس کے باوجود اقتدار میں مقتدرہ کے تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیںاور اقتدار سے نکلنے کے بعد اس پر ہی الزامات لگائے جاتے ہیں ، اس کے خلاف ہی بیانیے بنائے جاتے ہیں،اس وقت بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ، اس کے باوجود مقتدرہ کی کوشش ہے کہ ملک کو اپنے پائو پر کھڑا کیا جائے اور عوام کو مایوسی کے اندھیروں سے باہر نکالا جائے ، اس کو شش میں بڑی حد تک کا میاب بھی دکھائی دیے رہے ہیں ، ایک طرف بیرونی امداد لا رہے ہیں

، آئی ایم ایف کے قر ض منظور کروا رہے ہیں تو دوسری جانب اندرون ملک کاروباری حلقوں سے ملاقاتیں کر کے اُن کا اعتماد بحال کر نے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔گزشتہ دنوں بھی آرمی چیف نے مختلف کارو باری حلقو ں سے ملاقات میں ان کے درینہ مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی نہ صرف یقین دہانی کرائی ہے ، بلکہ انہیں ہر طرح کی سہولیات دینے کا بھی اعیادہ کیا ہے ،گوکہ اس وقت سنگل ونڈو کے طور پر کام کرنے والی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل سرمایہ کاروں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کر رہی ہے‘

اس کااپنے قیام کے وقت سے ہی فریم ورک جس دلجمعی سے کام کررہا ہے، اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ یہ اسم بامسمیٰ ثابت ہو گا، لیکن اس کے ساتھ ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی ہم آہنگی کو بھی فروغ دیا جائے، اپنی انا وضد کو چھوڑا جائے اور قو می مفاد میں ایک گر ینڈ مکالمے کا آغاز کیا جائے، کیونکہ ہمارے ہاںسر دست سیاسی عدم استحکام ہی سرمایہ کاری کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اور اس سلسلے میں دوسرا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کی صورتحال کا ہے ، یہ دونوں مسئلے جب تک حل نہیں ہوں گے ،ملک میں معاشی خوشحالی اور استحکام لانے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو پائے گا ۔
اس ادھورے خواب کی تکمیل کیلئے ریاست کوہی پیش قدمی کر نا ہو گی اور گر ینڈ ڈائیلاگ کی میز سجانا ہو گی ، کیو نکہ حکومت عوامی محاذ پر جہاںمسلسل ناکام ہو رہی ہے ،وہیں بیرونی دنیا میں بھی اپنی ساکھ دن بدن کھورہی ہے ، اُو پر سے اپوزیشن بھی حاوی ہورہی ہے ، ایسے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی آپشنز میں بھی کمی آ رہی ہے، اس وقت کے بد لتے حالات کا تقاضا ہے کہ پنڈی سیاسی جماعتوں کی

’چائے پانی‘ سے آؤ بھگت کرے اور اس ٹی پارٹی میں ہی گرینڈ مکالمے کا آغاز کرادیے ،کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟اگر اب بھی ایسا نہ ہواتو پھر وہی کچھ ہو گا ، جو کہ ایسے حالات میں ہوتا رہا ہے ، اس نام نہاد جمہوریت کی بساط لپیٹ کر آمریت سامنے آجائے گی اور کوئی کچھ بھی نہیں کر پائے گا ، سارے خالی نظروں سے دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں