67

اتفاق رائے سے ہی آئینی ترمیم کی جائے !

اتفاق رائے سے ہی آئینی ترمیم کی جائے !

اتحادی حکومت ایک طرف آئینی ترمیم پر اتفاق رائے پیدا کر نے کیلئے پورا زور لگا رہی ہے تو دوسری جانب وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہوئے ارکان پا لیمان کی جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے، اس پر جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ایک طرف حکومت آئینی ترمیم پر مشاورت کررہی ہے تو دوسری جانب ارکان پا رلیمان کو اغوا، ہراساں اور خریدو فروخت کررہی ہے

، اس طرح ہمارے خلوص، سنجیدگی اور نیک نیتی کا مذاق بنا یا جارہا ہے ، اگر یہ سلسلہ فوری ترک نہ کیا گیا تو پھر حکومت یاد رکھے کہ اس پر بہت سخت رویہ اختیار کیا جائے گا، ہر بد معاشی کا جواب بد معاشی سے ہی دیا جائے گا۔اگر دیکھا جائے توپارلیمنٹ ملک کا سپریم ادارہ ہے اور آئین سازی اس کا اختیار‘ اس اعتبار سے اس کی ذمہ داریاں بھی دوچندہو جاتی ہیں، لیکن ملک و قوم کا مفاد اور سیاسی ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ آئینی ترامیم کا حتمی ڈرافٹ تمام جماعتوں کی مشاورت سے ہی تیار کیا جائے

اور اس میں ملکی سلامتی‘ آئین کی بالادستی‘ شہری حقوق و آزادیوں اور قومی اداروں کے وقار سمیت تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھا جائے،اس باب میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن حکومت اور اپوزیشن کے مابین جس طرح پل کا کام کر رہے ہیں‘ وہ قابلِ ذکر ہے،اس کے باوجود حکومت وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے کی کوشش کررہی ہے ، ایک طرف مولا نا فضل الرحمن سے آئینی ترمیم پر اتفاق رائے پیدا کر نے کیلئے مشاورت کررہی ہے تو دوسری جانب ارکان پار لیما ن کی جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے

، اگر اس طرح بازو مروڑ کر اور ہاتھ باندھ کر آئینی ترمیم منظور کرائی جائے گی تو اس کی کیا حیثیت ہو گی اور اسے کون مانے گا ؟اتحادی حکو مت کو آئینی ترمیم کی ساکھ سے نہیں ، آئینی ترمیم جلد از جلد منظور کر انے سے ہی غرض ہے ، اس لیے ہی ایک طرف مو لا نا کو اتفاق رائے پیدا کر نے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے تو دوسری جانب مو لا نا سے ہی بالا ار کان پا لیمان کو توڑا جارہا ہے ، حکو مت کی اندر خانے کوشش ہے

کہ ار کان پا رلیمان کی جوڑ توڑ اور خریداری کر کے عددی اکسر یت حاصل کر لی جائے اوراس ایوان کے اجلاس میں ہی آئینی ترمیم منظور کرالی جائے، کیو نکہ حکو مت کے پاس وقت بہت کم رہ گیاہے ، اگر پچیس تاریخ سے قبل آئینی ترمیم منظور نہ ہوئی تو پھر آئینی ترمیم منظور ہو گی نہ ہی آئینی ترمیم منظور کر انے کیلئے حکو مت رہے گی ،اس حکو مت کو قائم رکھنے اور چلانے کیلئے ہی سارا زور لگایا جارہا ہے

اور آئینی ترمیم کو منظور کرایا جارہا ہے ، اس میں کہیں عوام کا کوئی بھلا ہے نہ ہی عوام کا کہیں مستقبل میںکوئی بھلا دکھائی دیے رہا ہے، حکو مت ہر کا م اپنے بھلے کیلئے ہی کررہی ہے اور اپنے مفادات کو ہی تر جیح دیے رہی ہے ، جبکہ عوام کے مستقبل کو دائو پر لگائے جارہی ہے۔
اتحادی حکومت کو تھوڑا سا عوام کا بھی خیال کر لینا چاہئے اور اس آئینی تر میم پر عوام مفاد کو بھی شامل کر لینا چاہئے ،کیو نکہ آئین میں ترمیم ایک دو ماہ یا ایک آدھ سال کا نہیں، بلکہ ملک و قوم کے مستقبل کا معاملہ ہے،

اگر اس حوالے سے دھونس یا وقتی مفادات کو فوقیت دی جائے گی تو معاملات سنورنے کے بجائے مزید بگاڑ کا ہی شکار ہوں گے ،اس کیلئے ضروری ہے کہ وکٹ کے دونوں جانب نہ کھیلا جائے ،بلکہ بالغ النظری کا ثبوت دیتے ہوئے دور اندیشی اور دانش و بصیرت کو بروئے کار لایا جائے اور مجوزہ آئینی تر میم کے مسودے پر خلوص نیت سے تمام پارلیمانی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ، اس آئینی ترمیم کا بنیادی تقاضا ہے کہ اس کا مسودہ پارلیمان کے سامنے میں پیش کیا جائے اور تمام معاملات پر کھلی بحث کی جائے‘ تکنیکی نوعیت کے معاملات میں متعلقہ شعبوں کے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے‘ وکلا تنظیموں اور سماجی حلقوں سے مشاورت کی جائے، اس معاملے میں جب تک رائے عامہ ہموار نہیں ہو گی‘ مجوزہ آئینی ترمیم شکوک و شبہات کی زدمیں ہی رہے گی۔
اس آئینی ترمیم پر جتنے مر ضی شک وشبہات کے بادل منڈلاتے رہیں ،اس کے باوجودبظاہر ایسا نہیں لگتا ہے کہ ان ترامیم کی منظوری میں کوئی بڑی رکاوٹ حائل ہو سکے گی،کیونکہ نمبر گیم پوری کرنے کے لئے طاقت کا ہر دروازہ کھول دیا گیاہے ،ایک مولانا فضل الرحمن ہی ایسی شخصیت ہیں کہ جن پر طاقت کا استعمال کارگر نہیں ہوتا ہے تو پھر اندر خانے کیا ہو گا، اس کا علم تو ترامیم کی منظوری کے بعد ہی ہو گا،لیکن کیا اِس آئینی ترامیم کے بعد آئین بھی ویسا ہی رہے گا؟ اگر خدانخواسطہ ہم اپنی خواہشات و مفادات کی وجہ سے آئین کو ہی متنازع بنا دیتے ہیں تو کیا ملک کی فیڈریشن جو پہلے ہی حد درجہ بحرانوں اور مسائل کا شکار ہے،مزیدنئے بحرانوں سے دوچار نہیں ہو جائے گی، اس پر قبل از وقت غور کر نا چاہئے اور اتفاق رائے پیدا کر نے کی کوشش کر نی چاہئے ،ورنہ اتفاق کے بغیر آئینی ترمیم آئین کو ہی متنازع بنائے گی!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں