52

کب کچھ بدلا ہے جواب بدلے گا !

کب کچھ بدلا ہے جواب بدلے گا ! 

اتحادی حکو مت جب سے اقتدار میں آئی ہے ، اس کی ساری تو جہ خود کو بچانے اور کسی بھی طرح حکو مت چلا نے پر ہی مر کوز ہے ، اس کیلئے کبھی صدارتی آرڈینس لائے جارہے ہیں تو کبھی آئینی ترامیم پاس کرائی جارہی ہیں، لیکن اس کے باوجود حکو مت اپنے مقصد میں کا میاب ہو تی دکھائی نہیں دیے رہی ہے ، حکو مت کی ہر چال اُ س پر ہی اُلٹ پڑ رہی ہے، لیکن حکو مت بضد ہے کہ اپنی ہر ناکامی کو کا میا بی میں بدل کر ہی رہے گی ،

اس ضمن میں ایک طرف ستائیس ویں تر میم لائی جارہی ہے تو دوسری جا نب سپر یم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھائی جارہی ہے ، اس پر اپوزیشن قیادت کا کہنا ہے کہ حکو مت کچھ بھی کر لے ، اپنے مقصد میں کا میاب ہو پائے گی نہ ہی زیادہ دیر چل پائے گی ، حکو مت کو آج نہیں تو کل جانا ہی پڑے گا ۔
اتحادی حکو مت چھبیس ویں آئینی ترامیم منظور کرانے کے بعد سمجھ رہی تھی کہ انہوں نے آزاد عدلیہ کو اپنے تا بع کر لیا ہے اور اب سب کچھ اُن کی مرضی کے مطابق ہی چلے گا ، لیکن اس کے بر عکس ہوتا دکھائی دیا تو حکو مت کے ہاتھ پائو ں پھولنے لگے ہیں ، حکو مت کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ان بد لتے حالات کو اپنے قابو میں کیسے لایا جائے ، اس لیے کبھی ستائیس ویں تر میم لا نے کی باتیں کی جارہی ہیں

تو کبھی سپر یم کورٹ میںججوں کی تعداد بڑھا نے کا بل پیش کرنے کا عندیہ دیا جارہا ہے ،جبکہ اپوزیشن قیادت اور مو لانا فضل الر حمن کا کہنا ہے کہ ستائیس ویں آئینی ترمیم اور سپر یم کورٹ ججوں کا بلایوان میں لا نا اتنا آسان نہیں ہے ، اس کے خلاف ایوان کے اندر اور باہر بھر پور مزحمت کر یں گے۔
اپوزیشن کچھ بھی کر تی رہے اور کچھ بھی کہتی رہے ،حکو مت اپنی روش بدلنے والی ہے نہ ہی آئینی ترامیم اور ججوں کا بل لانے سے ٹلنے والی ہے ، حکو مت اپنے حصول مفاد میں سب کچھ ہی دائو پر لگائے جارہی ہے ،اس نے 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اپنی مرضی کے جج کو عدالت عظمیٰ پر مسلط کرنے کی خاطر سینئر ترین جج کے منصف اعلیٰ بننے کے اصول کو تبدیل کرکے پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے منصف اعلیٰ کے تقرر کا طریق کار متعارف کرایا اور عدالت عظمیٰ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے تیسرے نمبر کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی کو منصف اعلیٰ مقرر کر کے ارباب اختیار نے اپنی دانست میں عدالت عظمیٰ کے ماضی قریب کے کردار کو مستقبل میں بھی جاری رکھنے،

بلکہ اس سے بھی کمزور تر حیثیت میں لا کر اپنے تابع کر نے کی زبردست اسکیم پر عمل کیا ،لیکن حکومت کے سارے ہی حربے ناکامی سے دو چار ہوئے ہیں۔اس حکو مت نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو منصف اعلیٰ مقرر کر کے ان سے جو توقعات وابستہ کی تھیں اور حزب اختلاف کو جو خدشات در پیش تھے ،اس کے برعکس ہی صورتحال رخ اختیار کرتی نظر آرہی ہے، یہ توقع بھی کی جا رہی تھی کہ جسٹس یحییٰ آفریدی سے سینئر دونوں جج حضرات ان کی قیادت میں کام کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے

عدالت عظمیٰ سے مستعفی ہو جائیں گے، جب کہ بعض حلقوں کا خیال تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی درپیش حالات کے پیش نظر خود ہی یہ منصب قبول کرنے سے معذرت کر لیں گے ،مگر ان سب ججوں نے بہتر حکمت عملی کا مظاہرہ کیا اور معاملات کو ذاتی انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے ملک و قوم کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے

حکمت و تدبر کو جذباتیت پر ترجیح دی اور مل جل کر چلنے اور اعلیٰ عدلیہ کی عزت و وقار کی بحالی پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا ،اس دو طرفہ مثبت پیش رفت اور باہمی تعاون کے اچھے اثرات چند دن ہی میں سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ عدالت عظمیٰ میں ججوں کی تقسیم اور گروہ بندی کا تاثر تیزی سے زائل ہو رہا ہے، زیر التوا مقدمات کا بوجھ کم کر کے عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے اور کم سے کم وقت میں انصاف کی فراہمی کا جو جذبہ دیکھنے میں آرہا ہے ، وہ قابل ستائش ہے اور اس کے نتیجے میں عدلیہ کی عزت وقار، میں اضافہ ہو رہا ہے

، لیکن یہ سب کچھ حکومت کیلئے قابل قبول نہیں ہے ، کیو نکہ حکو مت کے اندر چور ہے ، حکو مت جا نتی ہے کہ وہ کس طرح آئی ہے اور اس کو کیسے لایا گیا ہے اور اس میں کون شر یک کار رہا ہے ،حکو مت کبھی نہیں چاہئے گی کہ الیکشن کا اڈیٹ ہو ، مخصوص نشستیں حق دار کو ملیں ،فارم 45 اورفارم47کا راز کھل جائے ،اس کیلئے حکو مت سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہے، اپنے مفادات کیلئے ایوان کا استعمال کررہی ہے

اورآئین کا حلیہ بگاڑ رہی ہے ،اس کے بعد کہہ رہی ہے کہ ہمیں آئین میں ترامیم کر نے کا حق حاصل ہے ،آئین میں ایسا حق عوام کے نمائندوں کو ہی دیا گیا ہے ، جبکہ یہ عوام کے حقیقی نمائندے ہیں نہ ہی انہیں عوام کی حمایت حاصل ہے ،عوام کے نمائندے آئین کا حلیہ بگاڑتے نہیں ،آئین سنوارتے ہیں ، جبکہ یہ آئین کا حلیہ بگاڑے جارہے ہیں ، اس طرح کب کچھ بد لا ہے جو اب بدلے گا ، اس پر شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ۔۔
لگی ہے پھر صدا ایک بار کہ سردار بدلے گا
فرعونی سلطنت کا بس ایک کردار بدلے گا
جس قوم کو خود پر جبر سہنے کی عادت ہو
وہاں کب کچھ بدلا ہے جو اس بار بدلے گا !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں