قرآنی علم اعجاز کا نمونہ
۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707
قرآن کریم علمی اعتبار سے ایک سمندر مانند ہے جو کوئی تیراک،اس میں غوطہ زن ہوتا ہے اپنی تمام تر، ان سہولیات کے ساتھ جو اسے زیادہ سے زیادہ سمندر کی گہرائی تک لیجاتے ہوئے، زیادہ سے زیادہ وقت وہیں سمندر کی تہوں میں کسی خاص چیز کے لئے مصروف تلاش رہنے میں مدد دیتے ہیں وہ یقیناً کوئی انمول چیز دنیا والوں کے لئے سمندر کی گہرائیوں سے لے آنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ طلوع اسلام کے شروعاتی کچھ صدیوں دوراں ہمارے اسلاف نے قرآنی تعلیمات پر تدبر و تفکر خوب تر کئے
اور اللہ رب العزت نے انہیں اس علم البحر تعلیمات قرآنی غوطہ زنی کے نتیجہ میں، اتنا کچھ نوازا کہ آج ایکسوین صد تلوار و نیزہ زنی حرب کے بجائے ڈرون و میزائل سازی حرب جدید سے ایک دوسرے کو ورطہ حیرت کا شکار بناریے دور علم وعرفان میں بھی، موجودہ عصری اعلی تعلیم یافتہ دنیا،آج بھی سلف و صالحین والے، جابر بن حیان،الحسن بن الہیثم، محمد الکرخی، محمد بن موسی الخوارزمی، ابوبکر الرازی، ابوالقاسم الزھراوی،ابن سینا،ابن النفیس، کے وضع کردہ سائینسی اوصول اور عصری سائینسی ترقی پزیری دور کے دریافت کردہ نقوش پر آگے بڑھتی پائی جاتی ہے۔ 1258 سقوط بغداد عراق اور 1492 سقوط ہسپانیہ و غرناطہ اسپین بعد، اس وقت اقتدار عالم پر اپنے پیر ہھیلاتی برطانوی مسیحی حکومت نے، کم و بیش آٹھ سو سالہ ابتدائی اسلامی خلافت کے پسپائی ہزیمت کے سبب، سکوت بغداد و اسپین ان ایام، ایک حد تک عالم کے نقشہ سے ختم ہوچکی خلافت دوبارہ زمام اقتدار عالم پر واپس نہ آجائے
اسلئے اس وقت کے علماء وقت ہی سے، مسلم امہ عالم تک،حصول علم کو،صرف علم دین ہی تک محدود کئے گویا اپنے تفکر و تدبر سے ہم مسلمانوں کو علم عصر حاضر سے اتنا نالاں کردیا تھا کہ اس وقت تک کا حصول علم کالج و یونیورسٹیوں سے خانقاہوں،مسجدوں مدرسوں کی دیواروں گنبذوں تک ایسا مقید ہوکر رہ گیا تھا کہ علم عصر حاضر حاصل کرنے والوں کو خدا بیزار دہریہ تک کہلایا جانے لگاتھا۔ اور امت مسلمہ سے ہٹ کر، جو علم عصر حاضر حاصل کر بھی لیتا تھا وہ علوم دینیہ و علوم عصر حاضر درمیان بنائی گئی گہری کھائی کی وجہ، عموما یا تو تفکر لادین، دہریہ ہوجاتا تھا یا اسے بنادیا جاتا تھا۔ یہ اور بات ہے
عالمی یہود و نصاری سازش کندگان اور برٹش سامراج کی ہزار کوششوں کے باوجود زوال بغداد و اسپین بعد ترکیہ سے ارتغرل غازی کی پھیلتی سلطنت کو، بعد کے دنوں خلافت عثمانیہ کا درجہ دئیے، عالم کے تین چوتھائی خطوں پر پھیلی اسلامی حکومت اسلام کی احیاء پروری کے لئے قائم تھی لیک اپنی سرحد اسعت پزیری میں مصروف رہنے کی وجہ،ترویج علم عصر حاضر اس رفتار سے آگے بڑھ نہ پائی جس کی وہ متقاضی تھی۔خصوصاً متحدہ ھند جیسے برطانوی زمام حکومت والے خطوں میں تو،علوم دینیہ اور علوم عصر جدید درمیان بڑھی خلیج کو دارالعلوم دیوبند کی طرف سے شروع کی گئی تحریک آزادی ھند اول ریشمی رومال اور 1857 غدر تحریک کو برطانوی سامراج کی طرف سے بزور قوت ختم کئے
جانے کے بعد، 1875ء میں،اس وقت کے مسلم امہ تفکر کے خلاف، حصول علم عصر حاضر، تعلیمی مشن کے طور پر سرسید احمد کا شروع کیا گیا “محمدن اینگلو اورینٹل کالج” جو جنوبی ایشیا میں پہلی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد بننا شروع ہوا تھا اوراسوقت آج کے اس لاسلکی ترقی پزیری ماورائت دور میں بھی، تیس چالیس سال کے اندر 1915 تک حصول علم عصر حاضر آگہی تفکری سیلاب، جنوب ھند، انجمن حامی المسلمین بھٹکل، اور انجمن اسلام ، ممبئی تک میں، پہنچ چکا تھا۔ اور اب 1992 ھندو شدت پسندوں کی طرف سے مسلمانوں کی عظمت کی شان سمجھے جانے والی بابری مسجد شہادت کے بعد، ملک گیر پیمانہ پر جب، “حصول علم عصر حاضر” بیداری جاگی ہے۔ کاش کہ برطانوی سرکار ہم مسلمانوں میں علم کو عصری و دینی دوحصوں میں تقسیم کئے، ہم مسلمانوں کو علم عصر حاضر ماورا رکھنے کی اپنی سازش میں کامیاب نہ ہوئی ہوتی تو،عالم کی سائینسی ترقی پزیری میں ہم عالم کےمسلمانوں کو، اہل سلف کے مسلم سائینسی دانوں ہی پر اکتفا کئے نہ رہنا پڑتا
۔دیر آید درست آید اب تو عالم کے ہم مسلمان اپنے دینی علمی اثاث کے ساتھ علم عصر حاضر کے صحیح معنوں شہسوار جب بنیں گے تو، یقین مانئے پیشین گوئی رسول اللہ ﷺ پندرھویں اسلامی صد اختتام، شروع ہونے والا ہزاروں سال پر محیط اسلامی خلافت نشاط ثانیہ یقیناً نہ صرف ہم مسلمانان عالم بالکہ انسانیت کے لئے بھی لازوال ہوگا۔ انشاءاللہ وما علینا الا البلاغ قرآنی علم اعجاز کا نمونہ شیخ فاضل سلیمان ایک مصری الیکٹریکل انجینیر گیم ڈیولپر،عربی انگریزی اردو ھیبرو جیسی مختلف زبانوں کے ماہر برٹش فاؤنڈیشن کے ڈائرکٹر اور قرآن مجید کے
ٹرانسلیٹر یا مفسر قرآن بھی ہیں ان کے ساتھ یہ گفتگو دراصل عالم دین حافظ قرآن اور شیوخ اسلام کے لئے آگہی پیغام کے طور بہت افادیت والی ہے ہم درخواست کریں گے کہ اسے ھند و پاک بنگلہ دیش کے اعلی دینی و عصری تعلیم یافتہ حضرات بغور سنیں اور اسی طرز قرآنی تعلیمات کو مسلم امہ میں عام کرنے یا کروانے کی کوشش کی جائے۔ابن بھٹکلی