30

، برگد کی چھاوں

، برگد کی چھاوں

کالم نگار،،،، شمع صدیقی ۔

آج ماضی کے جھروکوں میں جھانکا تو احساس ہوا کے میں نےزندگی میں کتنی بےوقوفیاں کی ہیں کہ اگر میں بے اپنی کمائی کو صرف اپنی ذات پر لگایا ہوتا تو مجھے کوئی غم نہ ہوتا جو آج میرے ساتھ ہو رہا ہے مجھے مرے اپنے جگر کےٹکڑے قدم قدم پر یہ احساس دلاتے ہیں کہ بابا اب آپ کیا اچھے لگیں گے ایسا سوٹ پہن کر سب کیا کہیں گے کہ اس بڑھاپے میں جوان نظر آنے کی کوشش اور سب کہنے کے اپنے بچوں کی طرح جوان ہونے کی کوشش کر رہے ھیں یہ انکے انداز تو دیکھو اور آواز آئی کہ ان کی عقل پر تو پردہ پڑ گیا ہے

جو اس قسم کی حرکتیں کر رہے ہیں ۔اے کاش مری عقل پر پرد پڑ جاتا جب میں جوانی میں تنخواہ لا کر اپنی بیوی کی ہتھیلی پر رکھ کر اس کو یہ کہتا تھا کہ بھت احتیاط سے خرچ کرنا کیونکہ ابھی کی کالج کی فیس جانی ہے اور دیکھو اپنے کپڑوں. کا پلان اگلے مہینے پر رکھوں اور وہ بیچاری منہ ہی منہ میں کیچھ کہکر خاموش ہو جاتی اور پھر تھوڑی دیر میں موڈ صحیح کر لیتی اور مسکرا کر کافی کا مگ مرے ہاتھ میں تھما دیتی کہ جلدی سے کافی پی لیں کہیں ٹھنڈی نہ ہو جاے اور بات آئی گئ ہو جاتی بس زندگی اسی ڈگر پر چلتی رہی اور ہم دونوں ہر تنخواہ آنے پر اپنا من اسی طرح مارتے رہے کہ ہم نے ابھی اہنے فرائض کو پورا کرنا جو ہمارے لیے یعنی ہر والدین کے لیے فرض اولین ہے کہ کہیں ہمارے بچوں کی تعلیم ادھوری نہ رہ جاے

اور انہیں یہ ٹینشن نہ ہو کہ فیس کا مسئلہ ہے کوئی اور یہ بات انکی تعلیم پر اثر نہ ڈالے اور بچوں کی تعلیمی اخراجات کو پورا کرتے کرتے آج ہم بڑھاپے کی دھلیز کو چھونے لگے اور اسکے ساتھ ساتھ ہم نے ایک گھر بھی اپنی جمع پونجی سے بنا ڈالا اور گھر بناتے ہوے اس بات کو بہت اہمیت دی کہ ہمارے بچوں کو کس قسم کے کمرے پسند ہیں غرض اپنی ہر خواہش پر اپنے بچوں کی پسند کو ترجیح دی اور اپنی طرف سے اہنے فرائض بخوبی نبھا کر اور اپنے ارمانوں کا گلا گھونٹ کر، اور آج ہمارے بچے کامیاب ہو گیے مت پوچھیے کہ ہماری خوشیوں کا کیا ٹھکانہ تھا ہمارے پاوں زمین پر نہی ٹک رہے تھے سمجھیں ہم خوشی سے ناچ رہے تھے اور سب رشتے دار آکر مبارک باد دے رہے تھے بہت اچھا لگ رہا تھا ۔

بس پھر تو دل میں خواہش جاگی کہ اب ہم اگلا فرض نیبھایں اور انکے گھر بسایں اور اللہ کے حکم سےانکو اچھے ساتھی بھی مل گیے اور بچوں کے گھر آباد ہوگئے اور زندگی کا نیا رخ شروع ہو گیا اور ہم نے سوچا کہ چلو اب کوئی زمہداری نہی اب ہم سکون سے زندگی گزاریں گے اور بس ۔
مگر اب تو اصل امتحان شروع ہوا اور بڑی شدت سے یہ احساس ہوا کہ ہم اپنی بچوں زندگی کی کامیابی کےاصول تو سیکھاتے رہے

مگر انکو یہ نہی سیکھایا کہ جس برگد کے پیڑ کے نیچے تم سکھ کا سانس لے رہے ہو اسکی احتیاط کیسے کرنی ہے ہماری تربیت میں ہم سے بھول ہو گئی ۔کہ اب وہ بچے جنکو اچھا مستقبل بنانے کے لیے دن رات محنت کرتے رہے اب ان بچوں کو یہ بات بری لگنے لگی کہ ہم اپنی مرضی کوئی کھانا کھائیں بقول بچوں کہ ، آپ کیا اس عمر میں یہ کھا کر ہماری دوڑ لگوایں گے ، آپ سمجھتے کیوں ،نہی یہ کھانے آپکو اب ہضم نہی ہونگے بھیٰ کچھ سوچ لیا کریں ،اپنی عمر تو دیکھیں
اور اسی قسم کی بھت ساری باتیں جو ہم روز اپنے بچوں سے سنتے رہتے ہیں ۔کیا ہم انکی تربیت کرنے میں ناکام رہے،

کیا انکا مستقبل بناتے ہوے ہم بہت کچھ نظر انداز کر گیے کہ ہم سے یہاں کوتاہی ہوئی کی جب یہ بچے کسی قابل ہو جائیں تو یہ ہم پر بے جا پابندیاں عاید کر دیں ہم اپنی مرضی سے نہ کھا سکیں نہ پہن سکیں، اور نہ اپنے ہی گھر میں آزادی سے جی سکیں اور نہ اپنی خوشی اور غم کو اپنی مرضی سے اظہار کر سکیں ۔
یہ بچے یہ کیوں بھول گیے انکو کامیابی تک پہنچانے کے لیے ہم نے اہنے ارمانوں کا کتنا گلا گھونٹا ہے ۔ہم نے تو سوچا تھا کہ بچے بڑے ہونگے اور انکآ گھر بسا کر ہم چین اور سکھ کی زندگی گزاریں گے جیسے ہم نے انکا خیال رکھا ہے ویسے ہی یہ ہمارےساتھ رویہ رکینھگے مگر ایسا نہی ہوا۔
قارین میں پوچھتی ہوں ان نوجوانوں سے کہ والدین نےاپنی زندگی کی ہر خوشی کو بلانے طاق رکھ کر اور اپنے ارمانوں کا گلا گھونٹ کر آپ سبکا مستقبل بنایا کہ زندگی کی کامیابیاں سمیٹو اس لیےنہی کہ اس عمر میں آکر ان کو ہر وقت یہ احساس دلاو کہ وہ اب بوڑھے ہو گیے ہیں اور اب بابا ڈرائیو نہی کر سکتے اور وہ باھر جا کر کیا کرینگے

ہم گھر پر ہی انکو انکی چیزیں. لا دینگے یہی بات سب سے زیادہ غلط ہے اور وہ یہ دیکھیں کہ گھر بیٹھے بور ہو گیے ہیں انکو بھی باھر کی رنگینیاں دیکھنے کا حق ہے آپ باھر جارہے تو انکو بھی اپنے ساتھ گاڑی میں بیٹھا کر لے جایں اور اسوقت یہ بات نوٹ کریں کہ وہ باھر سے آنے کے بعد کتنا اپنے آپکو فریش محسوس کر رہے ہیں اور کتنی دعائیں نیچھاور کر رہے ہیں ۔اور ان کے لیے ضروری نہی کہ زندگی کی ہر خوشی کو ان پر پابندیاں لگا دی جایں بلکہ میں یہ کہونگی آپ ضود انکے ہر اچھی سے اچھی چیز لے کر آئیں اور کہیں وہ انکو استمعال کرنے اور پھر آپ خود انکی تعریف کریں تو یہ تمام باتیں انہیں بہتر زندگی کی طرف لے جاتیں ہیں اور آپ کے لیے دعاوں کی برسات ہوتی ہے

اللہ کریم راضی ہوتا ہے اس عمل سے اور والدین کی دعاوں سے کامیابی کے راستے کھلے رہتے ہیں ۔ ایسا کرنے سے۔اور اگر آپ عمل صیح نہی یے تو پہلے یہ سوچ لیں جو بچہ آج آپ کی گود میں بیٹھا ہے کل وہ بھی اس مقام تک آے گا اور اور اس میں آپ کی محنت کا بہت ہاتھ ہو گا اور پھر یہ کہانی دھرای جاے گی تو کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے بار بار سوچ لیجیے کہ ہم کیا کرنے جارہے ہیں،
قارین خاص طور پر آج ہی سے اپنی غلطیوں کا ازالہ کیجے معافی مانگیے پہلے اپنے رب سے اور اپنے والدین جن کا آپ بہت دل دکھا چکے ہیں اپنی لا علمی میں کہ رب آپکو معاف کر دے ۔ آپ کی جنت آپ کے ہاتھوں میں ہے اپنے نام کر لیجیے انکا دل جیت کر انکی خدمت کر کے کہ وقت کا کچھ پتہ نہی کہ کب پیغام آجائے اور ہمارے ہاتھوں میں صرف وہ پچھتاوے رہ جائیں جو کبھی ہمیں کبھی سکون سے جینے نہ دیں
تو کیوں نہ ہم آج ہی سے اپنی غلطیوں کا ازالہ کریں اور اپنے رب کو راضی کریں
کہ اسکا حکم بھی یہی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کا دل سے اہترام کریں انکو عزت دیں انہیں اپنی زندگیوں میں لازم و ملزوم کر لیں ہماری وجہ سے کبھی انکا دل نہ ٹوٹے وہ کبھی اداس نہ ہوں کیونکہ وہ ہماری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں آج اگر ہم کامیاب ہیں تو انہی کے مرہون منت ہیں ہم تو صرف خالی ہاتھ اور بغیر علم کے دنیا میں آے تھے اور انہوں نے ہماری زندگی میں رنگ بھرے جینا سکھایا اور کڑی دھوپ میں کھڑے ہوکر اک برگد کی طرح ہمارے سروں پر سایہ کیے رکھا ہمیں زمانے کی تیز و تند ہواوں سے بچانے رکھا ۔اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنا وہ حق ان کے لیے ادا کریں ۔اور اپنے رب کو راضی کریں اور ساتھ ہی اپنے والدین کو بھی اللہ کریم ہمارا حامی و ناصر ہو ۔آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں