سہارے کچھ کام نہیں آئیں گے!
تحریک انصاف کار کنان عمران خان کی رہائی کیلئے بڑے ہی پر جوش دکھائی دیتے ہیں ،ایک طرف چو بیس نومبر احتجاج کی تیاریاں ہو رہی ہے تو دوسری جانب کارکنان کی گر فتاریاں ہو رہی ہیں ، لیکن کار کنا پر عزم ہیں کہ احتجاجی تحریک کا میاب بنائیں گے اور بانی پی ٹی آئی عمران کان کی رہائی دلائیں گے ، اس کے بر عکس حکو مت کی پوری کوشش ہے کہ اس احتجاجی تحریک کے ساتھ ہر اندرونی و بیرونی دبائو کو نہ صرف ناکام بنایا جائے،بلکہ عدالت سے ضمانت ملنے پر بھی عمران خان کورہا نہ ہو نے دیا جائے ، اس کو شش میں حکو مت بڑی حد تک کا میاب دکھائی دیے رہی ہے ، لیکن یہ کوشش کب تک کار گر رہے گی ، اس بارے کچھ یقین سے کہنا مشکل ہے ، کیو نکہ اگر پس بر دہ معاملات طے پا گئے تو حکو مت کچھ بھی نہیں کر پائے گی اور بے بسی سے دیکھتے ہی رہ جائے گی۔
اگر دیکھا جائے تو تحر یک انصاف کے ساتھ ایک عر صے سے ادارتی نر می گر می کا سلسلہ ایسے ہی چل رہا ہے ، ایک طر ف مذاکر ات کا شور ہے تو دوسری جانب ایک کے بعد ایک مقد مے بنا کر پا بند سلاسل رکھنے پر زور ہے ، گزشتہ روز بھی ایک کیس میںہائی کورٹ سے عمران خان کی ضمانت ہوئی تو دوسرے میں دھر لیا گیا اور ایک نئے مقد مے پر تفتیش شروع کر دی گئی ہے یہ مقد مات بنے اور ضمانتیں ہو نے کا سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا ، جب تک کہ معا ملات کہیں طے نہیں ہوں گے ، اس کو ڈ یل اور ڈھیل کا نام دیاجائے یا اس پر مفاہمت کا لیبل لگایا جائے ، اس کو آج نہیں تو کل ہو نا ہی ہے ،
اس کے بغیر الجھے معاملات سلجھ پائیں گے نہ ہی فر یقین آگے کہیں بڑھ پائیں گے ۔
گزشتہ ادوار میں جو کچھ ہوتا رہا ہے ، اس بار بھی وہی کچھ دہرایاجارہا ہے ، اہل سیاست نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا ہے نہ ہی اہل ر یاست اپنی روش بدل رہے ہیں ، دو نوں آزمائے فار مو لے ہی آزمائے جارہے ہیں اورخود کو یقین دلائے جارہے ہیں کہ اس بار اپنے حصول مفاد میں کامیاب ہو جائیں گے ، جبکہ ایسا کچھ پہلے ہوا ہے نہ ہی آئند ہ کچھ ہو نے والا ہے ، ایک بار پھر آزما یا ناکام فار مو لا ، دوبارہ ناکام ہو نے والا ہے ، اس کے آثار صاف دکھائی دیے رہے ہیں ، اتحادی ایک دوسرے سے منہ موڑ رہے ہیں
، سر پر ست ہاتھ کھینچ رہے ہیں اور حزب اختلاف ایک دوسرے سے اپنا کند ھا جوڑ رہے ہیں ،اس وقت ایک بڑا احتجاج اور اس کے پیچھے مذاکرات، ایسے ہی نہیں ہو رہے ہیں ، اس سب کے پیچھے کچھ تو ایسا ضرور ہو رہا ہے کہ جس کی پر دہ داری کی جارہی ہے ۔
یہ بات چھپا نے سے چھپنے والی نہیں ہے کہ لا نے والے بے زار ہو نے لگے ہیں اور کہیں اور بات چلا نے لگے ہیں ، اس کیلئے بیرونی دبائو کا بہانہ بنایا جارہا ہے اور کسی دوسرے کیلئے راستہ ہمورا کیا جارہا ہے ، اس حصول اقتدار کی دوڑ میں شامل ہو نے کیلئے سب ہی زور لگارہے ہیں، ایک دوسر سے آگے بڑھ کر یقین دلا رہے ہیں کہ اس سے بہتر ثابت ہوں گے ،اس حکو مت کے ساتھ وہی کچھ ہو نے جارہا ہے
جو کہ اس نے اپنے سے پہلی حکو مت کے ساتھ کیا تھا ، کل اُن کی باری تھی تو آج اِن کی باری آرہی ہے تو ہاتھ پائو مار رہے ہیں ،واویلا کررہے ہیں اور دوسروں کے ایجنڈے کی تکمیل کا الزام لگارہے ہیں ، لیکن بھول رہے ہیں کہ خود کس کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے آئے تھے اور کس کے ایجنڈے کی تکمیل میں لگے رہے ہیں،یہ مقافات عمل ہے اور اس کا سامنا تو کر نا ہی پڑے گا ، جو کچھ بویا ہے ، وہی کا ٹنا پڑے گا۔
اس حکو مت کے پاس اپنی اصلاح کا وقت بہت کم ہی رہ گیا ہے ، حکو مت کو چاہئے کہ اس قلیل وقت میں اپنے لیئے نہیںتو عوام کیلئے ہی کچھ کر لے ، تا کہ جب عوام میں جائیں تو عوام کا سامنا کر سکیں ، عوام سے اپنے لئے کچھ مانگ سکیں ، عوام کی کچھ نہ کچھ حمایت حاصل کر سکیں ، لیکن حکو متی قیادت کو عوام سے زیادہ عوام مخالف ہی عزیز رہے ہیں ،انہیں ہی خوش کیا جارہا ہے اور ان کے ہی سہارے چلا جارہا ہے ، حکو مت اور اپوزیشن کو جان لینا چاہئے کہ یہ سہارے بروقت کبھی کام نہیں آئیں گے ،یہ سہارے بیچ منجھ دار چھوڑ جائیں گے ، یہ کبھی ایک تو کبھی دوسرے کا سہارا بن جائیں گے اوربن سہارے ہاتھ پائوں مارنے والے گہرے سمندر میں کہیں ڈوب جائیں گے ، اس پر فراز نے کیا خوب کہا ہے کہ۔
زندگی تو اپنے سہارے چلتی ہے فراز
اوروں کے سہارے تو جنازے اُ ٹھا کرتے ہیں