جینا بھی عذاب 26

کشکول توڑنے کا خواب؟

کشکول توڑنے کا خواب؟

جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی

ایک وقت تھا میاںنوازشریف نے تواتر سے قوم کو یہ نوید سناتے رہے کہ ہم کشکول توڑ دیں گے اور پاکستان کو غیر ملکی قرضوں سے نجات دلائیں گے اس کے لئے ’’قرض تارو ملک سنوارو ‘‘ نامی ایک ہیجان انگیز مہم بھی چلائی جس میں ہزاروں محب وطنوں نے جذباتی ہوکر گراں قدر عطیات بھی دئیے لیکن اس سکیم کا کیا حشر ہوا؟،کتنے پیسے جمع ہوئے؟ اور ان کا تصرف کیا ہوا ؟ کوئی نہیں جانتا اسے سے بڑا قوم کے ساتھ بھونڈا مذاق بھی ہو سکتا ہے کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آیاہوگا

ا اس کے برعکس پاکستان حکمرانوںکی نااہلی کے باعث قرضوں کے مایہ جال میں پھنستا چلا گیا بلکہ یہ کہنا زیادہ بہترہوگا کہ اسی طرح دھنستا چلا گیا جس طرح کئی سال پہلے ملتان میں چلتی میٹرو بس سڑک میں دھنس گئی تھی اب یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں رہی ن لیگ کے دور حکومت ہو پیپلزپارٹی اقترارہو یا پھر تحریک ِ انصاف میں پاکستان کی معیشت عدم استحکام کا شکار رہی اب تازہ ترین خبریہ آئی ہے کہ گذشتہ روز پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دئیے، انڈیکس نے یکے بعد دیگرے تین نئی بلند ترین سطحیں عبور کرتے ہوئے کاروباری دورانیے میں 2431پوائنٹس کا اضافہ ہوگیا۔

کے ایس ای 100 انڈیکس انڈیکس نے ایک کے بعد ایک کرکے 1لاکھ 11ہزار، 1لاکھ 12ہزار اور 1لاکھ 13ہزار کی تین نئی بلند ترین سطحیں بھی عبور کرلیں۔ انڈیکس بڑھ کر 113242پوائنٹس کی نئی بلند ترین سطح پر ٹریڈ کررہا ہے قوم کو اس اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں الجھانے والے فقط ایک سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ دن بہ دن مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے، چینی،گھی، بجلی ،پٹرول کی قیمتوںمیں اضافہ کیوںکیا جارہاہے؟ ایک طرف حکمران پوری قوم کو بے وقوف بناکر خوش قسمتی کے تعویز بانٹ رہے ہیں

دوسری طرف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ان کا بھانڈہ بیچ چوراہے میں پھوڑدیاہے چیئرمین کمیٹی سینٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) اور عالمی کمرشل بینکوں سے حاصل کردہ قرضے کی شرائط پیش کی گئیں جس میں انکشاف ہوا کہ آئی ایم ایف سے تقریباً 5 فیصد شرح سود پر 7 ارب ڈالر قرض حاصل کیا گیا جس میں 3.37 فیصد ایس ڈی ا?ر ریٹ، 1 فیصد مارجن اور 50 بیسز پوائنٹس سروس چارجز شامل ہیں جبکہ IMF کو قرضہ گریس پیریڈ سمیت 10 سال کی مدت میں قابل واپسی ہوگا

اور آئی ایم ایف کو ششماہی بنیاد پر 12 اقساط میں یہ قرض واپس کیا جائے گا اجلاس میں چینی بینکوں سمیت دیگر اداروں سے 7 سے 8 فیصد سود پر قرض لینے کا انکشاف ہوا جن میں چائنا ڈیویلپمنٹ بینک، انڈسٹریل کمرشل بینک آف چائنا اور اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک شامل ہیں وزیرخزانہ نے مہنگے بیرونی کمرشل قرضے لینے کا تاثر رد کردیا کہا اب ہم تب قرض لیں گے جب ضرورت ہوگی، کمرشل بینکوں سے کوئی بھی قرض ہم اپنی شرائط پرلیں گے ۔ وزیر خزانہ نے انٹرنیشل کیپٹل مارکیٹ سے جلد رجوع کرنے کا بھی عندیہ دے دیا،

کہا کہ رواں مالی سال پانڈا بانڈ کے اجراء کا پلان ہے جس سے پاکستان میں صنعتی اشاریوں میں بھی بہتری آنا شروع ہوگئی ہے آئی ایم ایف کا نیا پروگرام ایک طویل اور بڑا پروگرام ہے جس میں کچھ اضافی شرائط بھی شامل ہیں ۔
حکمرانوں کے اعداودشمار سن کر عوام روز سرپیٹ لیتی ہے حقیقتاً ماضی کے مقابلہ میں غیرملکی قرضوں کی مالیت میں سینکڑوںفیصد ریکارڈ اضافہ ہوا جس کے بعد غیرملکی قرضوں کی مجموعی مالیت کئی ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ماہرین کے مطابق معاشی عدم استحکام کا بوجھ آنے والی حکومت کو اٹھانا پڑے گا۔ روپے کی قدر میں مزید کمی متوقع ہے۔ درآمدات اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے قرضوں پر انحصار بڑھے گا۔

جس کیلئے حکومت کو برآمدا ت میں اضافہ اور غیرملکی سرمایہ کاری کے لئے پالیسیوں کوسازگار بنانا ہوگا۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ن لیگ کی حکومت کے آغاز پر غیر ملکی قرضوں اور واجبات کی مالیت 60 ارب 90 کروڑ ڈالر تھی جو مارچ 2018کے اختتام تک 91ارب 80کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اس طرح اپنی مدت پوری کرنے والی ن لیگ کی حکومت کے دور میں غیرملکی قرضوں کے بوجھ میں 31ارب ڈالر کے لگ بھگ اضافہ ہوا

جو پاکستان کی معاشی تاریخ میں کسی بھی ایک حکومت کے دور میں غیرملکی قرضوں میں اضافے کا سب سے بڑا ریکارڈہے ۔ن لیگ کی حکومت میں بے تحاشہ درآمدات کا سلسلہ جاری رہاجبکہ برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ نہ ہوسکا جس کی وجہ سے توازن ادائیگی بھی بری طرح خراب رہا اور زرمبادلہ کے ذخائر کو دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ سابقہ حکومت کے آغاز پر زرمبادلہ کے ذخائر کی مجموعی مالیت 11ارب ڈالر تھی جس میں سرکاری ذخائر کی مالیت 6 ارب ڈالر جبکہ کمرشل بینکوں کے ذخائر کی مالیت 5ارب ڈالر تھی

حکومت کی جانب سے انٹرنیشنل مارکیٹ میں بانڈز کی نیلامی کے ذریعے حاصل کردہ مہنگے قرضوں سے زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج اضافہ ہوا او ر آج یہ قرضے تاریخ کی بلند سطح تک پہنچ گئے تاہم غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی، غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر دباؤ کا شکار رہے اور مئی 2018کے وسط تک 7ارب 30کروڑ ڈالر کمی کے بعد مجموعی ذخائر 16ارب 65کروڑ ڈالر کی سطح پرآگئے

جن میں سرکاری ذخائر کی مالیت 10ارب 32کروڑ ڈالر اور کمرشل بینکوں کے ذخائر 6ارب 33کروڑ ڈالر ریکارڈ کئے گئے۔ن لیگ کے گذشتہ دور حکومت میں پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاروں نے 16ارب 32کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی تاہم اس میں سے براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری 9ارب 97کروڑ ڈالر رہی۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں غیرملکی سرمایہ کاری کی مالیت 9ارب ڈالر رہی تھی اور پاکستان کو بیرونی تجارت میں 105ارب ڈالر خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حکومت میں شامل معاشی ماہرین برآمدات بڑھانے میں بری طرح ناکام رہے

جس کے بنیادی اسباب میں توانائی کا بحران، بلند پیداواری لاگت اور برآمدی شعبے کی مسابقتی صلاحیت میں کمی جیسے عوامل شامل ہیں۔عمران خان کے تین سالہ اقتدار اور مسلم لیگی ادوار حکومت میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی آتی رہے اور ڈالرکی قیمت میں اضافہ دیکھنے میں آیاجسے کسی بھی حکومت کی معاشی ناکامی کاسبب ہی کہا جاسکتاہے پاکستانی قرضوں کا حجم آئی ایم ایف بیل آوٹ پیکیج کی گھنٹیاں بجانے لگا ہے

جس سے قرین از قیاس یہی ہے کہ آئندہ مالی سال میں پھر غیر ملکی قرض لینا ہوں گے اس وقت معاشی صورت ِ حال یہ ہے پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر 3 سال کی کم ترین سطح پر ہیں جس کے سبب دوست ملک سعودی عرب پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے اپنا قرضہ تین سال کیلئے موخرکردیاہے آئی ایم ایف پیکیج اور چینی سرمایہ کاری کے مرہون منت کچھ بہتری ہونے کی توقع ہے

اس کے علاوہ اسلام آباد پر بیجنگ کے بڑھتے قرضوں پر سوال ہے کہ یہ ادا کیسے ہوں گے؟ موجودہ حکومت کے پاس اس سے نمٹنے کی کیا حکمت ِ عملی ہے کیونکہ یہ مسلم لیگ ن یا13جماعتی اتحادPDM کی حکومت کے حقیقی معاشی استحکام کے خدو خال تھے اس وقت میاںنوازشریف، وزیر ِ عظم میاںشہباز شریف،وفاقی و صوبائی وزراء اور ترجمان حکومتی کامیابیوںکے مسلسل گن گاتے پھرتے ہیں بغورجائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتاہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کو خوفناک معاشی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑے گا اس صورت ِ حال سے نکلنے کے لئے حکمرانوںکے پاس ایک طے شدہ فارمولاہے

کہ مختلف نوعیت کے ٹیکسز میں اضافہ کردیا جائے حکومتی معاملات میں سادگی کو فروغ دینا کسی بھی حکمران کی خاص ترجیح نہیں رہا اس کی مثال حکمرانوںکا پروٹوکول،غیرملکی دوروں پر قافلوںکی روانگی اور سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال ہے حالانکہ سادگی کو فروغ دے کرحکومتی اخراجات میں نمایاں کمی کی جاسکتی ہے اب تلک تو یہ ہوتا آیاہے کہ حکومت اپنے اخراجات پورا پورا کرنے کیلئے پٹرولیم مصنوعات، بجلی،گیس پر نئے ٹیکسز بھی لگا دیتی یہ صورتِ حال انتہائی خطرناک بلکہ خوفناک ہے۔

ماضی میں نگران حکومتوںنے بھی غیرملکی قرضے لے کرپاکستان کونقصان پہنچایا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ نئے غیرملکی قرضے لینے پر مکمل پابندی لگادی جائے صرف اسی صورت پاکستان ان قرضوںکے مایہ جال میں مزید پھنسنے سے بچ سکتاہے حکومتی وسائل سے حکومتی نظام چلانے کے لئے مربوط حکمت ِ عملی ترتیب دی جائے اسی میں ہماری بقاء کاراز پوشیدہ ہے ورنہ کشکول توڑنے کا خواب شرمندہ ٔ تعبیرنہیں ہوسکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں