جینا بھی عذاب 27

جاگو،جاگو سحرہوئی

جاگو،جاگو سحرہوئی

جمہورکی آواز
ا یم سرورصدیقی

آج ہمارا عجیب حال ہے کوئی غورکرنا بھی پسندنہیں کرتا شاید اس کو ترقی سمجھ لیا گیاہے دوپہرکے وقت ناشتہ کرنا فیشن بن چکاہے ہمارے مزاج سے دن رات کی تمیز ختم ہوگئی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اب اکثراس بات پراتراتے پھرتے ہیں حالانکہ صدیوں پہلے علم کے شہرنے اپنا فیصلہ سنادیا تھا کہ دیرگئے تک سونا ارادوںکو متزلزل بنادیتاہے آج پسماندہ اور غریب ممالک کے بیشترشہری ارادے باندھتاہوں توڑدیتاہوںکی عملی تفسیربن کررہ گئے ہیں یعنی کام کے نہ کاج کے دشمن ا ناج کے۔رات گئے سونے اور دوپہرکوجاگنے والے کیا جانیں شبنم کیاہوتی ہے یا بادِصبا میں سیرکرنے کا کیالطف ملتاہے ہم نے توپڑھابھی ہے

اپنے بزرگوںسے سنا بھی کہ صبح طلوع ِ آفتاب کے وقت اللہ تبارک تعالیٰ کے حکم سے فرشتے رزق تقسیم کرتے ہیں اور سونے والے اپنے حصے سے محروم رہ جاتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ علی الصبج ا سورج کی کرنیں کتنی بھلی لگتی ہیں یہ وہی جانتے ہیں جن کے دل و دماغ تروتازہ ہو جاتے ہیں جواس گئے گذرے دور میںتہجد کے وقت بیدارہوں ان کی قسمت پررشک کیا جاسکتاہے اور پھردن کا آغاز خالق ِ کائنات کے حضورسربسجدہ ہوکرکیا جائے

تو ان گنت رحمتوں اور برکتوںکانزول ہوتاہے لیکن برصغیرکے لوگوںنے ان رحمتوں سے منہ موڑلیاہے کیونکہ سوشل میڈیا نے پاکستان،بنگلہ دیش ،بھارت اور جنوبی ایشیاء کے کئی ممالک میں ٹیکنالوجی کا عذاب بنا دیاہے ان ممالک میں غربت،پسماندگی اور بیماریوںکی افراط ہے اس کے باوجود اربوں شہری اس طرزِ زندگی سے جان نہیں چھڑانا چاہتے اب انہیں کون سمجھائے کہ غورکیاکریں کہ غوروفکرکرنے والوںکیلئے بہت سی نشانیاں ہیں ۔ دل و دماغ کے دریچے کھول کر جائزہ لیں کہ ترقی کیسے کی جاسکتی ہے

اس کے لئے ایک مثال ہی کافی ہے کہ بھرپور دماغی و جسمانی مشقت کے باوجود پورا مڈل ایسٹ علی الصبح ایسے جاگ جاتاہے جیسے وہاں رہنے والے چابی کے کھلونے ہوں ہرشخص کو ڈیوٹی پرجانے کی فکرہوتی ہے، دور نہ جائیں کراچی،ڈھاکہ،اسلام آباد ،ممبئی،کلکتہ جیسے شہروںکا مشاہدہ کرلیں وہ زیادہ تو لوگ رات کو جلدسونے کے عادی ہیںپچانوے فیصد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا شام سات بجے تک کھا لیتے ہیں آٹھ،نو بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے بیدار ہو جاتے ہیں بڑے سے بڑا ڈاکٹر چھ بجے صبح ہسپتال میں موجود ہوتا ہے پورے یورپ، امریکہ جاپان آسٹریلیا اورسنگاپور میں کوئی دفتر، کارخانہ، ادارہ، ہسپتال ایسا نہیں جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں ! وہاں کام چوری، ہڈ حرامی یاسستی کا تصوربھی نہیں ہے یہی ان کی ترقی کا رازہے،آجکل چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکی ہے پوری قوم صبح چھ سے سات بجے ناشتہ اور دوپہر ساڑھے گیارہ بجے لنچ اور شام سات بجے تک ڈنر کر چکی ہوتی ہے ہمارا حال سب کے سامنے ہے

اللہ کے احکام کسی کیلئے نہیں بدلتے- اسکا کوئی رشتہ دار نہیں_ نہ اس نے کسی کو جنا، نہ کسی نے اس کو جنا جو جتنی محنت کریگا تو وہ اتنا کامیاب ہوگا ۔تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں اگر عیسائی ورکر تھامسن میٹکاف سات بجے دفتر پہنچ جائیگا تو دن کے ایک بجے تولیہ بردار کنیزوں سے چہرہ صاف کروانے والا خواہ مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو بہادر شاہ ظفر’ ناکام رہے گا جنوبی ایشیاء کے بیشترحکومتی دفاتر ہوںیا صوبائی محکمے یا نیم سرکاری اداروں میں ہر جگہ لال قلعہ کی طرز زندگی کا دور دورہ ہے، کتنے وزیر, کتنے سیکرٹری, کتنے انجینئر, کتنے ڈاکٹر, کتنے پولیس افسر, کتنے ڈی سی او, کتنے کلرک صبح آٹھ بجے ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں؟ کیا اس قوم کو تباہ وبرباد ہونے سے دنیا کی کوئی قوم بچا سکتی ہے- کوئی اس پر فخر کرتا ہے کہ وہ دوپہر کو اٹھتا ہے

لیکن سہ پہر تک ریموٹ کنٹرول کھلونوں سے دل بہلاتا ہے ، جبکہ کچھ کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ دوپہر کے تین بجے اٹھتے ہیں، کیا اس معاشرے کی اخلاقی پستی کی کوئی حد باقی ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں تو حد ہوگئی ہے سرکاری ملازمین لیٹ آنے کے باوجود کام کرناپسندنہیں کرتے کوئی ضرورت منداصرارکرے تو برامناجاتے ہیں یہاںنو ہر شعبے کا باوا آدم ہی نرالاہے اس لئے حکومت کو اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہڈحرام،نکھٹو،سست ،ویلے ملازمین کو ان کی کارکردگی کی بنیادپر تنخواہ دینے کی پالیسی اختیارکی جائے جس ملازم کی جتنی شکایات ہوں اس حساب سے اس کی تنخواہ میں کٹوتی کی جانی چاہیے سرکاری،نیم سرکاری اور خودمختارادروں،تجارتی مراکزکے نئے اوقات کار مقررکئے

جائیں تاکہ سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے اس سے پاور پلانٹوںپر غیرضروری بوجھ کا خاتمہ ہوگا جس سے انرجی کی کمی سے نمٹاجاسکتاہے اور کم سے کم لوڈشیڈنگ کرناپڑے گی۔نہ جانے لوگ کیوںنہیں سمجھتے رات گئے سونا اور دوپہرکوجاگنا فطرت کے منافی ہے بلکہ قدرت کے ساتھ تصادم ہے جس کا کبھی رزلٹ اچھا نہیں آسکتا رات کو اللہ نے آرام کیلئے بنایاہے اسی لئے جدید ریسرچ میں کہاگیاہے کہ لیٹ سونے والے عجیب و غریب نفسیاتی بیماریوں کا شکارہورہے ہیں

اس لئے ہم سب کو بالآخرفطرت کی طرف لوٹناہے غورطلب بات یہ ہے کہ جو بھی کام آپ دوپہر کو زوال کے وقت شروع کریں گے وہ زوال ہی کی طرف جائے گا کبھی بھی اس میں برکت اور ترقی نہیں ہو گی اس لئے اور یہ مت سوچا کریں کے میں صبح صبح اٹھ کر کام پر جاؤں گا تو اس وقت لوگ سو رہے ہونگے میرے پاس گاہک کدھر سے آئے گا. گاہک اور رزق اللہ رب العزت بھیجتے ہیں اس میں کسی کو شک وشبہ نہیں ہونا چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں