ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ تو، استاد بچوں کے دوسرے والدین 36

فقراء فری معاشرہ بنانا کیا ناممکن کام ہے کیا؟

فقراء فری معاشرہ بنانا کیا ناممکن کام ہے کیا؟

۔ نقاش نائطی
۔ 966562677707+

ضرورت مند کی، بے مطلب مدد کرتے ہوئے اسے صدا کا فقیر بنائے رکھنے کے بجائے، اسے روزگار یا چھوٹی موٹی تجارت پر لگا محنت سے کمانا سکھایا جائے

مسجد نبوی ﷺ کے باہر کوئی مسلمان بھیک مانگ رہا تھا۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے، اسے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ “کیوں بھیک مانگ رہے ہو؟” اسنے کہا “کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں، بچوں کا بھوک سے تڑپنا دیکھا نہیں جاتا اور میرے پاس کچھ نہیں ہے” آپ ﷺنے اس سے پوچھا کہ “تمہارے گھر میں، زائد از استعمال، کوئی چیز ہے؟” اس نے کہا ایک پیالہ ہے” آپ نے کہا “جاؤ اسے لے آؤ” وہ چلا گیا اور کچھ وقت بعد ایک پیالہ لئے آپﷺ کے پاس آیا۔ آپﷺ وہاں موجود صحابہ کرام سے پوچھا “کوئی اسے خریدے گا؟

” ایک صحابی نے کہا “ہاں یا رسول اللہ ﷺ، میں اسے دو دینار میں خریدنے تیار ہوں” آپﷺ نے پھر ہوچھا، اس سے زائد کوئی دے سکتا ہے؟ کسی دوسرے صحابی نے کہا “میں تین دینار میں اسے خریدنے تیار ہوں” آپﷺ نے، اس صحابی کو، پیالیہ دئیے 3 دینار لئے اور اس شخص سے کہا “بازار جاؤ دو دینار سے بچوں کے لئے کھانے کا انتظام کرو اور ایک دینار سے کلہاڑی خرید لاؤ”، جب وہ شخص کلہاڑی لے آیا تو آپﷺ نے اپنے دستک مبارک سے، لکڑی کا دستہ اس میں لگایا اور اس سے کہا، “پاس کے جنگل سے کچھ لکڑیاں کاٹ لاؤ اور اسے مدینہ کے بازار میں بیچ کر اپنی محنت کی کمائی سے اپنی اولاد کی پرورش کرو” کچھ وقفہ بعد وہ شخص جلائی جانے والی لکڑیوں کا تاجر بن چکا تھا

1970 میں محترمہ اندرا گاندھی کی سازش و مدد سے پاکستان سے آزاد ہوا ملک بنگلہ دیش، ہمہ وقت سیلاب و سمندری طوفان سے غریب اور پچھڑا ہوا ملک تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس بنگلہ دیش کے مسلمان تاجر تھے۔ وہ انتہائی غریب لوگوں کو جو عام بنکاری نظام سے قرضہ لینے کے اہل نہیں ہوتے تھے، انکو چھوٹے قرضے دینے کے نظام مائکرو فائینانس کا رواج دنیا والوں کو متعارف کرایا تھا۔ اس کے علاوہ وہ گرامین بنک کے بانی بھی ہیں۔ 2006ء میں، ان کو غریب لوگوں کی بہتری کے لئے کام کرنے پر اور سماجی خدمات کے شعبہ میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر یونس انفرادی طور پر بھی کئی بین الاقوامی اعزازات بشمول بین الاقوامی خوراک کا انعام (ورلڈ فوڈ پرائز World Food Prize) جیت چکے ہیں۔

انکا مشہور قول ہے، سمندر اور مختلف ندیوں سے گھرے بنگلہ دیش پس منظر میں کسی بھوکے فقیر مسکین کو بھیک میں کچھ پیسے دینگے تو وہ بازار سے مچھلی خرید، وہ اپنی آل اولاد کے ساتھ خوشی سے کھاکر ایک دن کے لئے نہایت مطمئن ہوجائیگا لیکن دوسرے دن سے وہی بھوک فاقہ اسے ہمیشہ کے لئے دوسروں سے مدد مانگتے مانگتے، صدا کا فقیر بنائے گا۔اس لئے اگر کسی مسکین غریب شخص کو مچھلی پکڑنے والا جال اور کاٹنے دیتے ہوئے، ندی دریا سمندر سے مچھلی پکڑنا سکھا دوگے تو وہ نہ صرف اپنی محنت کی کمائی سےاپنے خاندان کی عزت سے پرورش کرنے لائق بنے گا بلکہ معاشرے کی ضروریات مچھلی بھی دستیاب کرانے والا تاجر بن جائیگا۔ اسلئے پروفیسر ڈاکٹر یونس صاحب، فقراء کو سمجھا بجھاکر، کسی کو ان ایام پبلک ٹیلیفون بوتھ لگوا دئیے تو،کسی کو مچھلی پکڑنے والا جال پکڑوا دئیے، تو کسی کو ٹھیلے پر پھل فروٹ کی تجارت لائین پر لگواتے ہوئے، بنگلہ دیش سے فقراء کی تعداد کو گٹھاتے ہوئے انہیں روزگار یا تجارت پر لگواتے رہے۔

پروفیسر ڈاکٹر یونس کی محنت و جانفشانی کا نتیجہ ہے کہ کل تک ایک حد فاقہ کش بنگلہ دیشی قوم، آج انہی مائیکرو فنانسنگ کی ہی وجہ سے چھوٹے موٹے موٹے کاروبار، اور چھوٹی موٹی گھریلو صنعت میں مصروف عمل رہتے ہوئے، بتدریج ترقی کر، آج کا بنگلہ دیش، نہ صرف عالم کا ایک بہت بڑا ایکسپورٹر بن چکا ہے۔ بلکہ عالمی برانڈ کے کپڑے، بنگلہ دیش میں بنتے ہوئے پوری یورپی مارکیٹ میں چھائے ہوئے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر یونس کی قوم و ملت کے تئیں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے، جہان انہیں دنیوی کئی اعزازات مل چکے ہیں،وہیں کمزور و ناتوان انسانیت کو روزگار پر لگواتےہوئے، انہیں عزت نفس والی روزی روٹی کمانے لائق بنانے کے صلہ میں، قدرت کی طرف سے، انہیں بنگلہ دیش کی کارگزار حکومت کا سربراہ تک بنایا ہے۔ بےشک اللہ، اسکی مجبوب مخلوق انسانیت کی خدمت کا صلہ، آخرت میں دینے کے علاوہ، دنیا میں بھی دیا کرتا ہے

انڈیا کے صوبے مدھیہ پردیش ھندو شدت پسند سنگھی انتظامیہ نے، ابتداء میں، شہر اندور کو بھکاری فری معاشرے میں تبدیل کرنے کی نیت سے، یکم جنوری 2025 سے، اندور شہر میں نہ صرف بھیک مانگنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔بلکہ بھکاریوں کو بھیک دیتے، انہیں صدا بھکاری بنائے رکھنے، مدد کرتے پائے جانے والے شہریوں پر بھی، جرمانےعاید کئے، انہیں مستقبل میں بھکاریوں کو بھیک نہ دینے پر قائل کرنے کی اچھی شروعات کردی گئی ہے۔ جن بھکاریوں کو پکڑا گیا ہےان میں کم عمر بچوں کو مستقبل میں بھیک نہ مانگنے والے تحریری حلف نامے کے ساتھ جہاں چھوڑ دیا گیا ہے

،وہیں صدابھیک مانگنے والے پیشہ ور فقیروں کو، دیوی دیوتاؤں کی دھرتی اجین میں، “پرم ہوجیہ رکھشک آویدناتھ ویلفیر اینڈایجوکیش سوسائیٹی کے تعاون سے، انہیں انکی استعداد کے حساب سے، ہنر سکھاتے ہوئے، روزگار پر لگانے کی کوشش، کی جارہی ہے۔ حلفیہ بیان بعد دوبارہ بھیک مانگتے پکڑے جانے پر، ضلع کلکٹر کو، ان پر تادیبی کاروائی کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چھپ چھپاکر کر بھیک مانگنے والوں کو حکومتی انٹظامیہ مخبری کرتے ہوئے، فقراء کو پکڑوانے پر،انکے نام اخفا کے ساتھ، انہیں انعام سے بھی نوازا جارہا ہے۔ ایسے میں بڑھتی بے روزگاری، بڑھتی مہنگائی، سے پریشان حال مسلم مساکین کی بہت بڑی تعداد کو، صدا کے بھکاری بننے سے آمان دلوانے کی ذمہ داری ،مسلم علماء زعماء و تونگران مسلم امہ کی، کیا نہیں ہے؟

گذشتہ دو تین دہے کے دوران ، جب سے ایک منظم سازش کے تحت شدت پسند ھندوؤں کے ہاتھوں بابری مسجد شہید کی گئی ہے،بھارت بھر میں پھیلائے گئے مسلم مخالف نفرت انگیز ماحول کے پس منظر میں، ساؤتھ انڈیا کرناٹک کے دھرمستلا مندر بشمول، کئی ایک مندروں اور دیگر ھندو شدت پسند تنظیموں کی طرف سے، نساء کو، خود کفیل (مھیلا وکاس) بنانے کے بہانے، مزدور پیشہ مسلم خواتین کے درمیان، آسان اقساط پر قرض اسکیم کے تحت، انہیں قرض دیتے ہوئے ،ان قرض اسکیموں کے ماہانہ انعامی ریفل ڈرا کے نام سے، انہیں مندروں میں لیجانا شروع کیا گیا ہے اب تو جب سے مہان مودی جی کی سنگھی حکومت بنی ہے،

مسلم دشمنی نہ صرف عروج پر ہے بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر مسلم مخالف سازشوں پر عمل پیرائی آسان ہوگئی ہے۔ اب تو نریندر مودی جی نے،ان مندروں والی قرض اسکیم کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے، مسلم مھیلائیں جو مندروں کے نام سے ایک حد تک پرہیز کرتی پائی جاتی تھیں ان تک کو، راغب کرنےکےلئے، وزیر اعظم کے نام نامی سے، مھیلا بچت اسکیم کے نام سے، قرض اسکیم شروع کرتے ہوئے، مسلم مھیلا کو، پھانسنا آسان بنا دیا ہے۔ ایسے میں کیا مسلم زعما و علماء و لیڈران اور مسلم درگاہ ٹرسٹ ہوں یا گاؤں گاؤں موجود جامع مساجد ٹرسٹ کے تحت، بنگلہ دیش والے محمد یونس کی طرف سے،دنیا والوں کو بتائے

اور عملا” کامیاب انداز کردکھائے مائیکرو فنانسنگ غیر سودی قرض اسکیم، مسلم مزدور پیشہ معاشرے میں، شروع کرتے ہوئے، مسلمانوں کو خصوصا مسلم نساء کو، ان ھندو شدت پسندوں کی سازشوں کے شکار ہونے سے، انہیں آمان دینے کی، کیا کوشش نہیں کی جائے گی؟ اس سمت مسلم علماء آخر کب جاگیں گے؟ آج بھارتیہ معاشرے میں صرف انہی کی کوششوں کے فقدان کے چلتے، مسلم معاشرے میں پروان چڑھتے، جہیز کی لعنت، ھلدی مہندی اور منھ دکھائی کی غیر شرعی رسومات نیز دو چار سو باراتیوں کو ساتھ لئے جاتے انکے لئے مرغن پرتعیش کھانے کھلوانے کا بے جا بوجھ لڑکی والوں پر زبردستی ڈالتے ہوئے

، انہیں صدا کا مقروض بھکاری بنانے والا عمل، تعلیم یافتہ غریب مسلم بچیوں کے ارتداد کے دروازے کھول رہے ہیں۔ معاشی کسم وپرسی میں جکڑی مسلم نساء کو، ان غیر مسلموں کے قرضوں کے تلے دبے مرتد ہوتے دیکھ کر بھی، کیا مسلم علماء یا مسلم پرسنل بورڈ نہیں جاگیں گے؟ کسی بھی معاشرے کے لئے معشیتی استحکام نہایت ضروری ہوتا ہے۔ قرون اولی کی خلافت راشدہ ہو کہ خلافت بنو امیہ یا کہ خلافت عثمانیہ، عالم کے مسلمان معشیتی طور اتنے مضبوط تھے کہ ان میں مسلمانوں کی طرف سے بٹنے والی زکاة کے حقدار ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملا کرتے تھے۔ لیکن آج کا پس منظر بالکل مختلف ہے

۔ اور اقوام کے مقابلہ میں عالم کی مسلم اقلیت،خصوصا بھارت کی مسلم اکثریت، اغیار کی سوچی سمجھی سازش کے تحت،معشیتی طور انتہائی کمزور کر رکھ دیتے ہوئے ، انہیں ہمیشہ چند روپیوں کے لئے، اپنے ایمان دھرم تک کا سودا کرنے لائق چھوڑا گیا ہے۔ ایسے پرآشوب دور میں مسلمانوں کو ارتداد سے روکنے کی ذمہ داری، مسلم صاحب زر اور علماء کرام کی کیا نہیں ہے؟ کل قیامت کے دن علماء سے صرف ان کے زہد وتقوی اور مسلم امراء سے انہیں عطا دولت کا صرف حساب ہی کیا لیا جائیگا؟ معشیتی طور کمزور بنائے گئے اور جہیز جیسی لعنت میں جکڑ دئیے گئے پس منظر میں، مسلمانوں کے ارتداد کا ذمہ دار مسلم علماء و صاحب دولت تونگران کو کیا ٹہرایا نہیں جائیگا؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس پر جتنی جلدی سوچ و بچار وتدبر کیا جائے اور مناسب حل ڈھونڈ نکالا جائے مسلم معاشرے کے لئے اتنا ہی اچھا ہے

اللہ کے رسول صلی اللہ کے، مسکین کو کلہاری خرید، جنگل سے لکڑیاں کاٹ لا، مارکیٹ میں بیچ، محنت کی کمائی سے اپنی اولاد کی پرورش کی ترغیب جہاں دی تھی۔ آج اس کورونا وبا کے بعد خصوصا ہم بھارت واسیوں کی بدقسمتی سے، ہم پر حکمران بنائے گئےسنگھی مودی یوگی جی کے انتخابی منشور و وعدہ، دو کروڑ لوگوں کو ہر سال نئی نوکری فراہم کرنے کے انکے اپنے وعدے کے خلاف، انکے 11 سالہ دور اقتدار میں سالانہ دو کروڑ کے حساب سے اب تک بائیس کروڑ لوگوں کو نئی نوکری ملنی چاہئیے تھی اس کے برخلاف، انکی ناعاقبت اندیش معشیتی پالیسئز سے،اب تک انکے وعدے کے قریب تر کم و بیش 18 تا 20 کروڑ پہلے سے روزگار پر رہے بھارت واسی بے روزگار ہو چکے ہیں۔

ایسے پر آشوب پس منظر میں، پینسٹھ سالہ کانگریسی راج میں مرکزی و ریاستی سطح کی بے روزگار نوجوانوں کو خود ساختہ تجارت و صنعت وحرفت شروع کرنے مدد کرتے ہوئے، خود کفیل بننے کی ہزاروں حکومتی اسکیمیں ہیں ۔ مختلف حکومتی اسکیموں سے استفادہ حاصل کریا ہم مسلمانوں کی زکاة و صدقات کا ایک کارپس فنڈ قائم کرتے ہوئے، اس سے بیروز گاروں کو، انکی طرف سے پیش کئےگئے تجارتی یا گھریلو صنعتی منصوبے کے تحت، قرض واپسی کی مشروط شرط پر قرض دیا جاسکتا ہے تاکہ اسی فنڈ سے کسی اور بے روزگار کو مستفید ہونے کا موقع دستیاب ہو۔ اس لئے ضروری ہے کہ ذمہ داران قوم ، قوم ہی کے جمع اس کارپس فنڈ کو، قوم کی امانت تصور کرتے ہوئے، مخصوص آسان شرائط واپسی کے ساتھ زیر ضمانت اچھی خاصی رقم بطور قرض ادا کرتے ہوئے، بے روزگاروں کو روزگار دلوانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔

بھیک مانگنے پر محنت مزدوری سے حلال رزق کمانے کی ترغیب دینے والے خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفی ﷺ کےامتی ہم مسلمانوں کو، انکے تنگ دستی کے سبب بھیک مانگنے سے، آن کو ماورا رکھنے ہی کی خاطر، بغیر سود قرضہ دیتے ہوئے یا اپنی طرف سے مدد کرتے ہوئے، انہیں کسی چھوٹی موٹی تجارت یا پیشے سے منسلک و مصروف کردیں تو ایک طرف فقرآء کی تعداد کم کرتےہوئےصالح معاشرے کی طرف گامزن ہوا جا سکے گا، اور دیش کی ترقی انتی بھی ہوگی۔

ویسے بھی سچے پکے مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں زکاة تو نکالنی ہی ہوتی ہے اور زکاة کے علاوہ خاتم الانبیاء کے ترغیب دئیے طریقہ سے، ہم اکثر مسلمان صدقہ بھی خوب دل کھول کردیا کرتے ہیں۔ اپنے صدقہ و زکاة فنڈ سے کئی سو ہزار غرباء کی بے وقعت مدد کرنے کے بجائے، باقاعدہ ایک نظم کے تحت، ہر ایک صاحب حیثیت ہر سال کسی ایک مفلس غریب کو روزگار یا پیشہ وارانہ معاش پر، یا چھوٹی موٹی تجارت ہی پر لگادے تو، معاشرے میں ہزاروں صاحب حیثیت کے، سالانہ ایک ہی کے حساب سے، کئی سو ہزار مفلس لوگ پیشہ ور فقیر بننے کے بجائے، نہ صرف عزت سے کما اپنی آل اولاد کی تربیت کرنے والے بن جائیں گے بلکہ ایک دوسالوں بعد، آج کے بھیک مانگنے والے، کل زکاة و صدقہ دینے والوں میں تبدیل ہوتے ہوتے، قرون اولی کے خلافت راشدہ، خلافت بنو امیہ، اور خلافت عثمانیہ کے دور والے، زکاة لینے والوں کے فقدان کا ماحول آج بھی معاشرے میں واپس لاسکتے ہیں۔ گر ہم باہم اتفاق و محنت و پوری دلجمعی کے ساتھ کوئی بھی کام کریں تو کوئی بھی کام ناممکن ہم نہیں پائیں گے۔ یہاں ایک بات بتانا ضروری ہے افغانی پٹھان اور بھارتیہ سکھ یہ وہ دو قومیں ایسی ہیں جن میں بھیک مانگنے والے نا کے برابر ہیں کیا ہم اہل نائط تجار قوم، اور دیگر مسلم اقوام کے تجار ایک مشن ایک منصوبے کے تحت، اپنی آل اقوام کو توکم از کم بھیک مانگنے والے مکروہ پیشہ سے مجتنب و ماورا کیا نہیں رکھ سکتے ہیں۔؟ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں