مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں !
ملک میںسیاسی بحران اپنے عروج پر ہے ،اس کے حل کیلئے مذاکرات انتہائی خوش آئند اور پوری قوم کے دل کی آواز ہیں، لیکن یہ مذاکرات جتنی نیم دلی کے ساتھ کئے جا رہے ہیںاور اس مذاکراتی عمل میںجتنی غیر سنجید گی دکھائی جارہی ہے، اس میں سے کوئی مثبت نتیجہ نکلتا نظر نہیں آرہا ہے،ایک طرف تحریک انصاف کا بریگیڈ دشنام کی بندوق تانے فائر کر رہا ہے تودوسری جانب حکومت کے وزراء بھی کوئی رعایت نہیں کرر ہے ہیں ،
ایک دوسرے ستے بڑھ کر بیانات داغ رہے ہیں،اس پوزیشن میں مذاکرات سے کوئی مثبت نتیجہ کیسے نکل سکتا ہے؟اگر دیکھا جائے تومذاکرات کا میاب بنانے کیلئے ماحول ساز گار بنانا پڑتا ہے، ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے رکنا پڑتا ہے، اپنی ضد اور انا کو ختم کرنا پڑتا ہے تو ہی مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں، اگر دونوں ہی فریق ایک دوسرے کو لتاڑ میں ہی لگے رہے گے تو پھر مذاکرات کی کامیابی کا کوئی روشن امکان کیسے نظر آسکتا ہے،
تا ہم اس کے باوجودمذاکرات ہورہے ہیں اور اس کے تیسرے رائونڈ میں تحریک انصاف کی جانب سے تین صفحات پر مشتمل سات نکاتی تحریری مطالبات حکومتی کمیٹی کے حوالے کرنے اور ملاقات کے بعد جاری اعلامیہ میں مذاکرات کی پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کرنے سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہونے کی امید تو ظاہر ہوئی تھی،مگراس کے کچھ ہی دیر بعد فریقین کی ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ پریس کانفرنسوں سے اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا ہے کہ فریقین میں سب اچھا نہیں چل رہا ہے۔
اگرچہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے مطالبے پر حکومت کمیشن بنانے سے انکار یا اقرار نہیں کر رہی ہے ،وزیراعظم نے مذاکراتی عمل کا جائزہ لینے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے‘ جو کہ مطالبات کی قانونی شکل کا جائزہ لے گی اور اس حوالے سے آئندہ چند روز میں جواب دے دیا جائے گا،مگر فریقین کی پریس کانفرنس کے جارحانہ انداز سے مذاکرات کے مستقبل کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اگر چہ مذاکراتی عمل کے آغاز کے وقت باور کرانے کی کوشش کی ضرور کی گئی تھی
کہ حکومت اور اپوزیشن میں کشیدگی کی شدید کیفیت میں فوری طور پر سب کچھ ٹھیک ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی‘ آپس کے تضادات ختم ہونے میں کچھ وقت تولگے گا ، اس لیے مذاکرات میں لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور مخالفانہ بیان بازی کو لگام دینا چاہیے،لیکن ایسا نہیں کیا گیا ، ایک دوسرے کے خلاف بیا نیہ جاری رکھا گیا ،اس سے تو ایسا ہی لگتاہے کہ سیاسی حریفوں نے اپنے معاملات آپس میں نہ سلجھانے کا تہیہ کر رکھا ہے اور شاید اب بھی کسی تیسرے فریق کی ہی جانب دیکھا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ تحریک انصاف قیادت کی بڑے وعصے بعدعسکری حکام سے ملاقات ضرور ہوئی ہے ،لیکن تحریک انصاف قیادت کی جانب سے گزشتہ روز عسکری حکام سے ہوئی ملاقات کو غلط مفہوم پہنانے سے بھی فریقین میں غلط فہمی پیدا ہوئی ہیں ،اس بارے سکیورٹی ذرائع نے فوری تصحیح کر دی ہے کہ اس بات چیت کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جارہا ہے ،سیاسی معاملات پر سیاستدانوں کو ہی آپس میں ہی بات چیت کرنی چاہیے اور غیر سیاسی قوتوں سیاسی معاملات میں شامل نہیں کر نا چاہئے ،
اس سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات سے جو توقع کی جا رہی تھی کہ سیاسی جماعتیں اپنے حالات اور تاریخ سے سبق سیکھ کر اپنا طرزِ عمل تبدیل کرنے کے قابل ہو چکی ہیں‘ وہ امیدیں بالکل غلط تھیں، سیاسی فریقین بدستور اسی سطح پر ہیں کہ جہاں پہلے تھے،وہ اب بھی سہارے ڈھونڈ رہے ہیں ، اشارکے منتظر ہیں اور اشاروں پر ہی چلنا چاہتے ہیں۔
ہمارے اہل سیاست نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا ہے
نہ ہی کچھ سیکھنا چاہتے ہیں ، ہماری سیاسی قیادت اس ادراک سے اب تک عاری ہے کہ ان کے پاس آپس میں مذاکرات کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے ، مذاکرات ہی واحد حل ہیں، اس کے بغیر چلا جاسکتا ہے نہ ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے، اہل سیاست کو اپنے سیاسی معاملات اپنے سیاسی انداز میں مل بیٹھ کر ہی حل کر نا ہوں گے ،پاکستان کی مستقبل کی تاریخ میں لڑانے والوں کا نہیں، مل بیٹھ کر صلح کروانے والوں کا ہی نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا ۔