ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ تو، استاد بچوں کے دوسرے والدین 24

عصری دنیا کی طبی ترقی پزیری، بارگائے ایزدی کے فیصلوں کے سامنے ھیچ تر ہے

عصری دنیا کی طبی ترقی پزیری، بارگائے ایزدی کے فیصلوں کے سامنے ھیچ تر ہے

۔ نقاش نائطی
نائب ایڈیٹر اسٹار نیوز ٹیلوزن دہلی
۔ +966562677707

وہ ہمارا بچپن کا ہم عصر، ہم کلاس تھا،ڈاکٹر آشفاق برماور اور ہم آپس کے گہرے دوست تھے۔آج اس کے یوں بچھڑنے نے، بچپن کی وہ حسین یادیں، ذہن کے دریچوں سے جھانک جھانک، ہمیں تازہ دم کر گئیں۔ساڑھے چار دہے قبل جمعرات و جمعہ کی شام عموما” ہم دونوں یا تو انکے گھر نور محل میں، کیرم کھیلتے گزارتے تھے یا اس زمانے میں، بہت کم طلباء کے پاس ہونے والی اسکی چیتک اسکوٹر پر، اس وقت کے غیر منافرتی دور میں، کبھی بیندور کنداپور درمیان پڑنے والے مندروں میں تو، کبھی دونوں طرف کے شرالی کے مندروں، اسکولوں کی چھتوں میں، بسیرا کئے کبوتر کا شکار کرنے،ایرگن لئے گھوما کرتے تھے۔

اس شاندار دلفریب موج مستی والے دوستوں کو، جوانی میں قدم رکھتے، فکر معاش نے، ہمیں ایسا بچھیڑ کر رکھدیا کہ کئی کئی کئی سالوں تک، ملاقاتیں ہونا مشکل ہوگیا تھا۔ لیکن چونکہ اسکی دختر نیک اختر بیاہی گئی اپنے شوہر نامدار کے ساتھ ہمارے ہی مسکن فکر معاش، الجبیل میں سکونت پزیر تھیں اور براہ اس سے ہمارے تعلقات نہ رہنے کے باوجود، ہمارے مشترکہ دوست، ڈاکٹر اشفاق جو سابقہ دو تین دہے سے،حادثے کا شکار نصف مفلوجیت کے ساتھ صاحب فراش ہیں ان سے گوناگوں لاسلکی جوال گفتگو ہوتی رہتی ہے

اور ان دونوں میں اب بھی وہ پہلے والی قربت باقی ہے، اس لئے ڈاکٹر اشفاق سے ہمارے بچپن کے ہم کلاس دوست صادق دامودی مرحوم کا نمبر لئے کچھ مہینے پہلے کافی طویل گفتگو کئے، اسے بیٹی داماد سے ملنے ہی کے بہانے، یہاں مملکت آنے کی دعوت دی تھی ۔لیکن قدرت کو شاید ہماری اس دنیا میں ملاقات منظور نہ تھی،اور بے شک ہر ذی روح، اس دنیا میں، عالم ارواح مقرر کیا اپنا وقت لے کر ہی آتا ہے اور ہزار بہانے ہزار طاویلات،اپنے رب کے بلاوے پر، اسے لبیک الھم لبیک کہتے جانا ہی پڑتا ہے۔ لیکن عزیزم صادق کی زندگی کے آخری کچھ ایام ہم دنیادار لوگوں کے لئے چشم گشاہ حقیت ایزدی ظاہر کرنے کے لئے کافی ہیں۔

ان کے والد بزرگوار عبدالحمید دامودی جو شہر دوبئی کے ایک اچھے منجھے ہوئے تاجر بھی ہیں اور دینی مدارس و مکاتب کے مددگار دست کشا بھی ہیں، اپنی علالت کے باعث آبائی گاؤں بھٹکل سے دور داخل مشتشفی زیر علاج تھے۔ کچھ دنوں قبل انہیں بھی عارضہ قلب حملہ آوری کے باعٹ، اسی ہاسپیٹل میں داخل علاج کیا گیا تھا۔عصر حاضر کا تیز بھدف علاج، قلب کی نالیوں میں اسٹنٹ ڈال کر، اسے صحت یاب جو کیا جاتا ہے، عزیزم صادق دامودی کے قلب دو نالیوں میں، اسٹنٹ ڈالے کچھ دنوں تک اہنی نگرانی میں دیکھ رہکھ علاج خاص کئے، عصر حاضر کے ماہر امراض قلب طبیبوں نے، اسے مکمل صحت یاب قرار دئیے،گھر میں کچھ دن مکمل آرام کرنے کے مشورے کے ساتھ، اس شفاخانے کے تعفن زد ماحول سے آزاد کئے،

گھر جانے کا پروانہ ہاتھ میں تھما دیا تھا۔ لیکن ان عصری تعلیم یافتہ مشرک اطباء کو یہ گمان کہاں تھا کہ انکے شفایاب مریض کو انکے زیر ضمانت اسٹنٹ زد کرنے کے باوجود،انکی کے شفاخانے میزن سنکے ہی سامنے، اوپر والے کا صرف ہلکا اشارتا” بلاوا، انکی جدت پسند عصری تعلیمی تمام ترصلاحیتوں کو منھ تکتا دیکھنے پر جہاں مجبور کررہا تھا، وہیں مائل پرواز سمان سچے بندے(صادق) کو، آخری لمحات میں سرخرو کئے، اپنے پاس بلوارہا تھا۔ ہاسپیٹل سے ڈسچارچ ہوتے آخری لمحات میں، اسی ہاسپٹل میں زیر علاج، اپنے والد بزرگوارکی قدم بوسی کے لئے، وہ تندرست و توانا قرار دیا گیا مریض، خود چل کر تو گیا تھا،لیکن زیرعلاج والد بزرگوار کے کمرے میں، اپنے رب حقیقی کی دعوت پر لبیک الھم لبیک کہتا وہ پرواز سماء ہوچکا تھا۔ اس غمزدہ ماحول میں ہم اپنے اللہ سے بس یہی دعا کرسکتے ہیں

کہ وہ ہمارے بچپن کے ساتھی صادق دامودی کے ساتھ حسن سلوک کرے،اسکی قبر کو اسکے لئے کشادہ تر اور باد نسیم جنت کے فرحت آفرین جھونکوں سے،معطر و شادمان رکھے اور عالم قبر و برزخ کو اسکے لئے پرسکون بنائے۔اسکے والد محترم عبدالحمید دامودی کے ساتھ ہمارے مشترکہ دوست، ڈاکٹر اشفاق برماور کو حیات والی زندگانی عطا کرے اور اپنے وقت پر ہم سبھوں کو، خاتمہ بالخیر ہوتے، اسکے پاس جانے والے خوش نصیبوں میں بنائے۔ آمین فثم آمین وما التوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں