یہ دل ہے ک مانتا ہی نہیں
نقاش نائطی
۔ +966562677707
دہلی انتخاب بی جے پی کی شاندار جیت کو دل ماننے تیار ہی نہیں ہورہا ہے یہ اسلئے 11 سالہ سنگھی مودی امیت شاہ گجرات لابی کنٹرولڈ انتخابی عمل میں، ہم نے ہمیشہ یہ دیکھا ہے کہ انتخابی نتائج آنے سے بہت پہلے، اپنے بکاؤ بھونپو میڈیا مسلسل کذب و افتراپروازی والی تشہیر سے، وہ اپنی ای وی ایم چھیڑ چھاڑ جیت کے لئے، عوامی ذہن سازی کرنے میں صدا کامیاب رہے ہیں اسی لئے نہ صرف عوام بلکہ بشمول دیڑھ سو سالہ مغلوب و محکوم بھارت کو ایک طویل مدتی آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے،
انگرئزوں کے چنگل سے بھارت کو نہ صرف ازاد کرانے کامیاب ہونے والے، بالکہ شہنشاء اورنگزیب عالمگیر کے پچاس سالہ زمام حکومت میں، اپنے 27 فیصد جی ڈی پی کے ساتھ،عالم کے انیک دیشوں میں، معشیی ترقی پزیری میں،سونے کی چڑیامشہور کرائے گئے، اور انگرئزوں کی مسلسل لوٹ کھسوٹ سے تباہ حال چھوڑے گئے،
عالم کی سب سےبڑی آزادجمہوریت کو، اپنے پورے پینسٹھ سالہ زمام حکومت میں، اپنے طویل مدتی متعدد پانچ سالہ منصوبوں کے ساتھ 2014 اسے عالم کی سب سے تیز ترقی پزیر جمہورہت میں بدلنے والے، سو سالہ آل انڈیاکانگرئس سمیت ، حذب مخالف ٹولہ بھی، سنگھی مودی امیت شاہ کے سامنے اپنے لب مہری سے خاموش تماشائی بنے رہے اپنی سیاسی وقعت کھونے مجبور ہوئے لگتے ہیں۔
2016 مہان موودی جے کئ من کی بات ذریعہ 140 کروڑ عوام پر زبردستی نافڈ کئے گئے، نوٹ بندی اعلان میں تباہ حال ہوئے مضطرب عوام کی دلجوئی کی خاطر جاپان سمٹ سے۔لوٹے پی ایم مودی جی نے گوا کے ہزاروں عوام کے سامنے خطاب کرتے ہوئے، 50 دن کی مہلت مانگتے ہوئے 140 کروڑ دیش واسی جنتا سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اپنے اچانک نافض العمل نوٹ بندی فیصلے سے، اگر انکی سنگھی سرکار دیش سے کالے دھن، نیز بیرونی پڑوسی دشمن دہشت گردانہ مسلسل یلغار کو ختم کرنے ناکام رہے
تو، وہ نہ صرف استغفی دئیے اپنی حکومت سے دست بردار ہوجائیں گے، بالکہ انہیں نوٹ بندی سے ہونے والی معشیتی ابتری بدحالی کے لئے 1،400ملین عوام کی طرف سے سزا پانے، کسی بھی شہر کے چوراہے پر اہنے آپ کو پیش کریں گے۔لیکن اسکے بعد کیا ہوا؟ اپنے نوٹ بندی فیصلہ سے دوسرے بہت سارے انگنت فائیدے آٹھاتےہوئے بھی، سنگھی بی جے پی نے ایک طرف یوپی انتخاب سماج واد، بہوجن سماج سمیت کانگریس کو یوپی انتخاب میں کالا دھن استعمال سے روکنے میں کامیابی حاصل کئے،
اپنی طرف سے خوب کالا دھن لٹائے، ھذب اختلاف کے لیڈروں کو ای ڈی انکم ٹیکس کا ڈر اور خوف بتائے انہیں توڑے، تو دوسری طرف اپنے ای وی ایم چھیڑ چھاڑ جن بھوت سے یوپی انتخاب میں اپنی جیت سے، مسلم دشمن سنگھی ذہنیت یوگی جی کو کامیاب کراتے ہوئے، نوٹ بندی باوجود، یوپی انتخابی جیت کو، عوامی ریفرنڈرم کے طور پیش کرتے ہوئے، نوٹ بندی ناکامی پر عوامی سزا پانے، دیش کے کسی بھی شہر کے عوامی چوراہے پر خود کو سزا کے لئے عوامی اجلاس پیش کرنے کے اپنے ہی وعدے ہی کو پس پشت ڈال دیا گیا تھا
اپنے ناعاقبت اندیش نوٹ بندی فرمان پر، معشیتی کامیابی حاصل نہ ہونے پر، عوام کےہاتھوں سزا پانے، 50 دن کی مہلت مانگتا پی ایم مودی کا گوا بیان
اب 2025 کے شروعاتی دنوں میں، دہلی انتخاب، بی جے پی کی بہت بڑی جیت کو، فری پانی،فری بجلی، آج کے سقم زد پس منظر میں، محلہ کلینک فری شفایابی، اور بڑے بڑے پونجی پتیوں والے مہنگے ترین تعلیمی نظام کے سامنے، عوام کو نہ صرف اچھی بالکہ اونچے پرائیویٹ اداروں سے تقابل کرتی، اس قدر بہترین فری تعلیم ریوڑی بانٹ کیجرئوال والے نظام کو مسترد کئے، دہلی کی عوام، کیوں کر بھارت کی معشیت تاراج کرنے والے سنگھیوں کو، دوبارہ اقدار پر لانے کی سوچے گی؟ یہ بات کم از کم ہمارامعصوم قلب و ذین ماننے تیار نہیں ہے۔دہلی انتخابی رزلٹ دیکھ کر، ہم یہی گنگتاتے رہ گئےکہ “دل ہے کہ مانتا ہی نہیں”
ماقبل آزادی کے انگریزوں کے تلوے چاٹننے والے ہندو مہاسبھائیوں کی اولاد، آج کے آرایس ایس بی جے پی والے سنگھی، اپنے ھیرو گوڈسے کے ہاتھوں بابائے ھند مہاتما گاندھی کے قتل بعد، ھندو دہشت گرد ممنوعہ پارٹی قرار دئیے، ارایس ایس کی سیاسی مکھوٹےجن سنگھی پارٹی بھارتیہ قانون سے بینڈ کردی گئی تھی۔ لیکن آل انڈیا کانگریس میں پہلے سے گھسائے گئے سردار پٹیل،سابق پی ایم نرسمہاراؤ سمیت انیک سنگھی ذہنیت لوگوں نے، کانگرئس میں رہتے ہوئے، اندرون کھاتے، ارایس ایس پر بینڈ ہٹانے ماحول بناتے ہوئے،
ماقبل آزادی انگریزوں کے وعدہ معاف گواہوں جیسے، صرف رفاعی کام کرنے کے وعدے پر، آزاد ہندستان کے وعدہ معاف ملزمان کے طور ان پر امتناع ہٹایا گیا تھا۔ چونکہ یہ بذات خود براہ راست انتخاب لڑے کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔1947 سے 1977 تک، اتل بہاری واجپائی اور ایل کے ایڈوانی جیسے ایک یا دو ہی جن سنگھ کے نام سے کامیاب ہوا کرتے تھے,اسلئے بعد ایمرجنسی والے پس منظر میں، کانگرئس کے خلاف ہوا چلتے ماحول میں، پہلی بنی نان کانگرئس جنتا دل حکومت میں، اقدار حکومت کا انہیں ایسا چسکا لگا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مکھوٹے سے، مسلم منافرتی، علی الاعلان ایجنڈے کے تحت بابری مسجد کے خلاف اندولن شروع کئے، انتخاب لڑنا شروع کیا اور حکومتی ایوانوں میں بیٹھے اپنے گرگوں کے سہارے، اندر سے کانگرئس کو کمزور کئے، بی جے پی اپنے طور مضبوط ہونے لگی
اور پچپن ساٹھ سال کی محنت کے بعد، مودی کی شکل میں نازی ڈکٹیٹر ٹائیب لیڈر کو سامنے کئے، گجراتی پونجی پتیوں کے ذریعہ بھارتیہ بھونپو میڈیا پر قبضہ جمائے، میڈیا وار کے ذریعہ مسلسل تشہیری مہم کے تحت، کانگرئس کو بدنام کرنا اور مودی جو مسیحا معشیت کے طور پیش کیا جانا شروع کیا گیا۔ وہ جو ہم عملی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ انپڑھ چرواہا کئی سو بکریوں کے ریوڑ کو، اپنی مرضی مطابق جہاں چاہے ہنکال لے جاتا ہے۔ میڈیا میسمیرزم کے ذریعہ ان سنگھیوں کے سیٹ کردہ ایجنڈے پر عوامی رائے عامہ ہموار کرنےکا کام میڈیا کے حوالے کیا جانے لگا۔ دہلی انتخاب سے کیجروال والی “آپ” پارٹی کے سیاسی منظرنامہ سے باہر کرنے کے لئے، پہلے انہیں جیل بیھجا جاتا ہے اور اسکے خاص میمبرسں کو توڑا جاتا ہے۔
اور اسکے باہر آنے کے بعد فرضی واہ واہی سے، اسے لاتسخیر ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے تاکہ اس میں اتنا تکبر و عناد بھرجائے، کہ وہ کانگرئس کے ساتھ گٹھ جوڑ کئے، بی جے پی کے پلان کو پارہ پارہ نہ کر سکے۔ اور وہی ہوتاہے۔ تکبر و انانئیت میں سرشار کیجریوال،کانگریس کی طرف سے پوری کوشش باوجود، ماقبل انتخاب دہلی آپسی انتخابی مفاہمت کرنے سے انکار کردیتے ہیں اور یوں بی جے پی سائبر میڈیا فنکاروں کو، اس دہلی انتخاب میں، کی گئی ای وی ایم چھیڑ چھاڑ کو کانگریس اپ درمیان سمجھوتہ نہ ہونے کے سبب، مسلم ووٹ بٹوارے کی وجہ، بی جے پی جیت ثابت کرنے، گودی میڈیا کو موقع بھی مل جاتا ہے
۔ اس دہلی انتخاب میں کانگرئس کو ملے ووٹ 34۔6فیصد کیجریوال والی آپ کو 59۔43 فیصد جملہ91۔49فیصد۔ جو بی جے پی کوملےووٹ57۔43 فیصد سے 34۔4فیصد زیادہ ہیں۔ تو گویا اگر کانگرئس اور کیجریوال میں ماقبل انتخاب سمجھوتہ ہوجاتا تو یقینا مکمل اکثریت کے ساتھ نون بی جے پی “آپ کانگرئس” کی حکومت ہھر ایک مرتبہ قائم ہوسکتی تھی۔ اب صرف اور صرف کیجریوال کی انانیت کی وجہ کانگریس سے ماقبل انتخاب معاہدہ نہ کرنے سے، اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ اپنی غلط معشیتی پالیسیر سے کمزور ہوتی بی جے پی کو پہلے مہاراشٹرا اور اب دہلی انتخابی جیت نے ایک نئی توانائی بخشی ہے۔
اب اس پس منظر والے انتخابی نتائج بعد، ایم آئی ایم کو ووٹ کٹوا پارٹی کہنے والے،کیا اب کانگرئس پارٹی کو سیکیولر ووٹ کٹوا پارٹی کہیں گے۔ یہ ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ سابقہ انتخاب سے جہاں کانگرئس کو 4۔5 فیصد ووٹ ملے تھے اب 2025 انتخاب میں ملے ووٹ 34۔6فیصد ہی ہیں جو صرف 94۔0فیصد بڑھوتری،اتنا بڑا الٹ پھیر کسی طور نہیں کرسکتے ہیں۔ اور دہلی کی عوام جو یقینا پڑوسی بہار پوپی سمیت دوسرے صوبوں کے پرواسی مزدوروں پر مشتمل ہے یقینا” کیجریوال والی آپ حکومتی، اتنے سارے تعلیمی صحت عامہ بجلی پانی ریوڑیوں کو درکنار کر، بی جے پی ووٹ کو دیتے نہیں پائے جاسکتے ہیں
۔ ملکی معشیت کو تاراج کرتے پس منظر میں دہلی میں ملنے والی ریوٹیوں کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کے ووٹ میں کٹاؤہونا چاہئیے تھا لیکن یہاں تو بی جے پی کے 7فیصد ووٹ کیوں کر بڑھے مل سکتے ہیں؟ یقینا” کہیں نہ کہیں یہ بی جے پی کے پاس موجود انہئں من چاہا انتخاب جتوانے والا ای وی ایم چھیڑ چھاڑ جن ہی ہے جسے استعمال کر وہ ہمیشہ ہارا ہوا انتخاب جیت جاتے ہیں اور اپنے بھونپو بکاؤ میڈیا کے استعمال سے عوامی تفکر کو غلط راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ بی جے پی کے لئے کیجریوال والی آپ کو کمزور کرنے سے زیادہ اہمیت کانگرئس کو کمزور کرنا ہوتا ہے اسلئے یہ بات بعید از امکان کسی صورت نہیں ہے
کہ بی جے پی نے، ای وی ایم چھیڑ چھاڑ کچھ فیصد ووٹ ادھر ادھر ضرور کئے ہیں، شاید کانگرئس کو ملنے والے ووٹ ہی کو کچھ فیصد کم کئے، انہیں ایک بھی سیٹ نہ دئیے، کانگرئس کو بی جے ہی کے سامنے کمزور تر کر پیش کرتے ہوئے، بی جے پی کو لاتسخیر کی حیثیت پیش کرنے کی کوشش یقینا” کی گئی۔لگتی ہے۔ اگر رائے عامہ مطابق ای وی ایم چھیڑ چھاڑ ممکن ہی نہیں یے اور بی جے پی کو اسکی کاکردگی پر ووٹ مل رہے ہیں تو پھر بیلٹ پیپر طرز انتخاب کرا دیکھنے سے بی جے پی کیوں بھاگ رہی ہے؟
سب سے اہم بات ہمارے ہمت کئے ایسا لکھ دینے سے یا کچھ اورلوگوں کے ای وی ایم خلاف سپریم کورٹ لمبی قانونی جنگ لڑنے سے، بی جے پی ہار تسلیم کئے ساٹھ پینسٹھ سال بعد، عالم کی سب سے بڑی جمہوریت پر ملا غلبہ یوں آسانی سے نہیں چھوڑنے والی۔ اب تو 2014 سے پہلے والے اعلی تعلیم یافتگان پر مشتمل سول سوسائئٹی بھی سرے سے نظر نہیں آرہی ہے، جو حکومت وقت کی خراب کارکردگی پر، جلسے جلوس منعقد کئے عوامی رائے عامہ ہموار کئے، حکومت وقت پر دباؤ برقرار رکھے، حذب اقتدار میں کچھ سدھار لاسکے۔
*دہلی اسمبلی انتخابات 2025: بی جے پی کی تاریخی فتح، عام آدمی پارٹی کا صفایا، اور کانگریس کی مسلسل ناکامی*
*بی جے پی کی اکثریت: 26 سال بعد دہلی میں اقتدار کی واپسی*