پٹرولیم مصنوعات بحران،حکومتی شخصیات کا سیکنڈل،نجی کمپنیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا 279

پٹرولیم مصنوعات بحران،حکومتی شخصیات کا سیکنڈل،نجی کمپنیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا

پٹرولیم مصنوعات بحران،حکومتی شخصیات کا سیکنڈل،نجی کمپنیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا

وزارت پٹرولیم کی تحقیقاتی کمیٹی نے پٹرولیم مصنوعات کے بحران میں برابر کی شریک جرم سرکاری کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل کو کلین چٹ دے دی،پٹرولیم مصنوعات کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ پروزارت پٹرولیم کی جانب سے بنائی گئی، تحقیقاتی کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ ارسال کردی،ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نجی تیل کمپنیاں ہی موجودہ بحران کی ذمہ دار ہیں

اس لئے انکے خلاف کارروائی کی سفارش کی جاتی ہے۔ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق نجی آئل ٹرمینلز پر پٹرولیم مصنوعات کی اسٹوریج کے لیے بنائے گئے ٹینکس کو بھی نہ صرف خطرہ قرار دیا گیا۔بلکہ ان کے خلاف سخت کارروائی کے لیے اختیارات بھی طلب کیے گئے ہیں۔

موجودہ پٹرول بحران پر وزارت پٹرولیم کی جانب سے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں نجی آئل کمپنیز ذمےدار قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ موجودہ بحران میں پی ایس او کے آئل ٹرمینلز 24 گھنٹے کام کرتے رہے، اس بحران سے قبل پی ایس او کا مارکیٹ شیئر 32 سے 36 فیصد تھا، تاہم بحران کے دوران تیل کی مسلسل سپلائی کے باعث مارکیٹ شیئر 54 فیصد سے زائد ہوگیا۔جن تین کمپنیز پر مقدمات کا اندراج کیا گیا وہ مارکیٹ شیئر زیادہ لے رہی تھی

اور بحران میں وہ بہت کم ہوگیا،ایک نجی کمپنی کے پاس پورٹ قاسم اور کیماڑی آئل فیلڈ میں 54 ہزار میٹرک ٹن تیل تھا، اس کمپنی کا پٹرول مارکیٹ شیئر 9 سے 14 فیصد کےدرمیان تھا جو پٹرول سپلائی نہ کرنے پر 11.2 فیصد تک گر گیا،اسی کمپنی کا ڈیزل مارکیٹ شیئر بحران سے پہلے 10.7 فیصد تھا۔

جو بحران میں 8.3 فیصد تک گر گیا،دوسری کمپنی کے پاس کیماڑی اور پورٹ قاسم آئل فیلڈز میں 43 ہزار میٹرک ٹن پٹرول موجود تھا۔اس کمپنی کا مارکیٹ شیئر بحران سے پہلے 10.3 فیصد تھا جو بحران میں 7.6 فیصد ہوگیا،اسی کمپنی کا ڈیزل مارکیٹ شیئر بحران سے قبل 8.6 تھا

جو بحران میں 5.7 فیصد رہ گیا۔تیسری کمپنی نے 27 مئی کو 3 ہزار میٹرک ٹن پٹرول درآمد کیا، تاہم 27 مئی سے 8 جون تک صرف 280 میٹرک ٹن پٹرول پمپس کو سپلائی کیا، اسی کمپنی نے 6 جون کو دوبارہ 5 ہزار میٹرک ٹن پٹرول درآمد کیا لیکن مارکیٹس میں فوری نہیں بھیجا، بحران سے قبل اس کمپنی کا مارکیٹ شیئر 2.3 فیصد تھا جبکہ بحران میں یہ 0.6 فیصد رہ گیا۔

اس طرح یہ تیل کمپنیاں ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ میں ملوث ہیں،ایک اور بڑی تیل کمپنی کا مارکیٹ شیئر بحران سے قبل 10.2 فیصد جبکہ بحران میں 6.1 فیصد رہ گیا، اسی طرح دیگر تیل کمپنیوں کے مارکیٹ شیئر میں بھی نمایاں کمی ہوئی،مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے

کہ ان تمام کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ایکشن لیا جائے، ان تمام کمپنیوں کو طے معیار پر پورا نہ اترنے پر ایک ماہ شوکاز نوٹس دیا جائے، اگر ایک ماہ میں انکی کارکردگی بہتر نہیں ہوتی تو لائسنس معطل کردیا جائے۔آئل ریفائنریز ملکی اثاثہ ہیں، ضروری ہے

کہ وہ جون اور جولائی میں زیادہ سے زیادہ کام کریں،پانچ نجی تیل کمپنیوں کے پٹرولیم مصنوعات کے ٹینکس میں سیفٹی رولز اینڈ ریگولیشن کی خلاف ورزیاں پائی گئی ہیں جبکہ زیادہ تر کمپنیوں نے نجی آئل ٹرمینلز پر کیمیکلز اسٹوریج کے لیے ٹینکس بنائے جس کو بعد میں انھیں پٹرولیم مصنوعات اسٹوریج میں تبدیل کر دیا گیا اور کسی بھی حادثے کی صورت میں بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے

،مشترکہ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ایچ ڈی آئی پی اور ایکسپلوزو ڈپارٹمنٹ کو انکے خلاف سخت ایکشن کے اختیارات دیئے جائیں۔مشترکہ کمیٹی کی رپورٹ میں سرکاری آئل کمپنی جو ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی کی نگران بھی ہے اس بحران میں برابر کی شریک رہی اور پی ایس او پمپس پر بھی شیل، اٹک، ھسکول اور پارکو آئل،کمپنیوں کے پٹرول پمپس کی

طرح شہریوں کو پٹرولیم مصنوعات دستیاب نہیں تھیں جسکا اعتراف مشیر پٹرولیم شہزاد نے بھی مختلف اوقات میں میڈیا میں آکر کیا تھا مگر سرکاری ذمہ داران کو اس سیکنڈل سے بچانے کے لیے پاکستان اسٹیٹ آئل کو. کلین چٹ دے دی گئی ہے.مشیر پٹرولیم مصنوعات بحران سیکنڈل میں حکومتی شخصیات کو بچا لیا گیا،نجی کمپنیوں کو بحران کا زمہ دار ٹھہرا دیا گیا،

وزارت پٹرولیم کی تحقیقاتی کمیٹی نے پٹرولیم مصنوعات کے بحران میں برابر کی شریک جرم سرکاری کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل کو کلین چٹ دے دی۔پٹرولیم مصنوعات کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ پر وزارت پٹرولیم کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ ارسال کردی،

ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نجی تیل کمپنیاں ہی موجودہ بحران کی ذمہ دار ہیں اس لئے انکے خلاف کارروائی کی سفارش کی جاتی ہے،ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق نجی آئل ٹرمینلز پر پٹرولیم مصنوعات کی اسٹوریج کے لیے بنائے گئے ٹینکس کو بھی نہ صرف خطرہ قرار دیا گیا

بلکہ ان کے خلاف سخت کارروائی کے لیے اختیارات بھی طلب کیے گئے ہیں۔موجودہ پٹرول بحران پر وزارت پٹرولیم کی جانب سے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں نجی آئل کمپنیز ذمےدار قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ موجودہ بحران میں پی ایس او کے آئل ٹرمینلز 24 گھنٹے کام کرتے رہے، اس بحران سے قبل پی ایس او کا مارکیٹ شیئر 32 سے 36 فیصد تھا، تاہم بحران کے دوران تیل کی مسلسل سپلائی کے باعث مارکیٹ شیئر 54 فیصد سے زائد ہوگیا۔

جن تین کمپنیز پر مقدمات کا اندراج کیا گیا وہ مارکیٹ شیئر زیادہ لے رہی تھی اور بحران میں وہ بہت کم ہوگیا،ایک نجی کمپنی کے پاس پورٹ قاسم اور کیماڑی آئل فیلڈ میں 54 ہزار میٹرک ٹن تیل تھا، اس کمپنی کا پٹرول مارکیٹ شیئر 9 سے 14 فیصد کے درمیان تھا جو پٹرول سپلائی نہ کرنے پر 11.2 فیصد تک گر گیا، اسی کمپنی کا ڈیزل مارکیٹ شیئر بحران سے پہلے 10.7 فیصد تھا

جو بحران میں 8.3 فیصد تک گر گیا، دوسری کمپنی کے پاس کیماڑی اور پورٹ قاسم آئل فیلڈز میں 43 ہزار میٹرک ٹن پٹرول موجود تھا۔اس کمپنی کا مارکیٹ شیئر بحران سے پہلے 10.3 فیصد تھا جو بحران میں 7.6 فیصد ہوگیا، اسی کمپنی کا ڈیزل مارکیٹ شیئر بحران سے قبل 8.6 تھا

جو بحران میں 5.7 فیصد رہ گیا۔تیسری کمپنی نے 27 مئی کو 3 ہزار میٹرک ٹن پٹرول درآمد کیا، تاہم 27 مئی سے 8 جون تک صرف 280 میٹرک ٹن پٹرول پمپس کو سپلائی کیا، اسی کمپنی نے 6 جون کو دوبارہ 5 ہزار میٹرک ٹن پٹرول درآمد کیا لیکن مارکیٹس میں فوری نہیں بھیجا، بحران سے قبل اس کمپنی کا مارکیٹ شیئر 2.3 فیصد تھا جبکہ بحران میں یہ 0.6 فیصد رہ گیا۔۔
اس طرح یہ تیل کمپنیاں ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ میں ملوث ہیں، ایک اور بڑی تیل کمپنی کا مارکیٹ شیئر بحران سے قبل 10.2 فیصد جبکہ بحران میں 6.1 فیصد رہ گیا، اسی طرح دیگر تیل کمپنیوں کے مارکیٹ شیئر میں بھی نمایاں کمی ہوئی، مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ ان تمام کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ایکشن لیا جائے،

ان تمام کمپنیوں کو طے معیار پر پورا نہ اترنے پر ایک ماہ شوکاز نوٹس دیا جائے، اگر ایک ماہ میں انکی کارکردگی بہتر نہیں ہوتی تو لائسنس معطل کردیا جائے۔آئل ریفائنریز ملکی اثاثہ ہیں، ضروری ہے کہ وہ جون اور جولائی میں زیادہ سے زیادہ کام کریں، پانچ نجی تیل کمپنیوں کے پٹرولیم مصنوعات کے ٹینکس میں سیفٹی رولز اینڈ ریگولیشن کی خلاف ورزیاں پائی گئی ہیں

جبکہ زیادہ تر کمپنیوں نے نجی آئل ٹرمینلز پر کیمیکلز اسٹوریج کے لیے ٹینکس بنائے جس کو بعد میں انھیں پٹرولیم مصنوعات اسٹوریج میں تبدیل کر دیا گیا اور کسی بھی حادثے کی صورت میں بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے،مشترکہ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ایچ ڈی آئی پی اور ایکسپلوزو ڈپارٹمنٹ کو انکے خلاف سخت ایکشن کے اختیارات دیئے جائیں۔مشترکہ کمیٹی کی رپورٹ میں سرکاری آئل کمپنی جو ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی کی نگران بھی ہے

اس بحران میں برابر کی شریک رہی اور پی ایس او پمپس پر بھی شیل ، اٹک ، ھسکول اور پارکو آئل. کمپنیوں کے پٹرول پمپس کی طرح شہریوں کو پٹرولیم مصنوعات دستیاب نہیں تھیں جسکا اعتراف مشیر پٹرولیم شہزاد نے بھی مختلف اوقات میں میڈیا میں آکر کیا تھا مگر سرکاری ذمہ داران کو اس سیکنڈل سے بچانے کے لیے پاکستان اسٹیٹ آئل کو کلین چٹ دے دی گئی ہے.

وفاقی مشیر پیٹرولیم ندیم بابر حکومتی عہدے میں ہونے کے ساتھ ساتھ پاور پلانٹس کے مالک بھی ہیں اور پٹرولیم مصنوعات سپلائی کرنے والی ایک. کمپنی کے شیئر ہولڈر بھی ہیں اسکے باوجود انکی تمام کوتاہیوں اور ذمہ داریوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے.




اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں