لہوں میں ڈوبا کشمیر…!
آمنہ مرید
ایسا شاید میری زندگی میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے جب قلم خون جگر ہے یہ کالم لکھنے کی کوشش کر رہا ہے..کشمیر 1947 پاکستان سے پاکستان کے حصہ میں آیا تھا.اب اس پر بھارت نے قبضہ کر رکھا ہے.کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان میں تنازعے کی اہم ترین وجہ ہے اور اس تنازعے کا واحد حل اقوام متحفہ قراردادوں کیتناظر میں کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنا ہے. کشمیر کا نام سنتے ہی جنگ، لاشیں، حراستیں، جبری گمشدگیاں، حراستی قتل، املاک کی تباہی و بربادی، پیلٹ گن سے چھلنی، بے بینائی لوگ، ظلم وجبر کے سائے میں پلتی ہوئی زندگیاں، لاپتہ شوہروں کی منتظر ”نصف بیوہ خواتین”، انتظار میں بیٹھی وہ ماں جس کا بیٹا قابض فوج کے تاریک عقوبت خانوں میں مار دیا گیا،
اجتماعی قبریں اور عصمت دری کا شکار زندہ لاشیں ذھن میں آتیں ہیں۔کشمیر جو کبھی ایشیا کا سوئٹزر لینڈ کہا جاتا تھا آج دنیا کے خطرناک ترین تنازعے کا مرکز بن چکا ہے۔ اس کی وجہ سے اسلامی دنیا کی بڑی قوت پاکستان اور خطے کے اہم ترین ملک ہندوستان کے مابین تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ اور دونوں ممالک کے عوام کے سروں پر ایٹمی جنگ کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔پاکستان ان کے حق حریت کی حمایت کرتا ہے۔قانون آزادی ہند کے مطابق ریاستوں کو اپنی آبادی اور جغرافیائی حالات کے مدنظر الحاق کرنے یا خود مختار رہنے کا حق دیتا ہے۔
جغرافیائی اعتبار سے ریاست کشمیر کے جنوب سے مغرب کی جانب 1500 کلومیٹر سرحد پاکستان سے لگتی تھی جبکہ شمال میں ذرا سی زمین کی پٹی بھارت سے ملتی ہے۔ اس کے علاوہ کشمیری عوام کے مذھبی، سماجی، معاشی رشتے اور یہاں کے زمینی خدوخال پاکستان سے باہم مربوط ہیں۔دوسری جانب ریاست کشمیر اس وقت تین حصوں میں منقسم ہے۔چینی اور پاکستان کے زیر انتظام علاقوں کے برعکس ہندوستان کی مقبوضہ وادی میں بے چینی اور مظاہرے اس بات کے غماز ہیں کہ کشمیری اکثریت ہندوستانی تسلط کو نا پسند کرتی ہے۔ جس کو دبانے کے لئے ہندوستان کی پر تشدد انسانیت سوز کاروائیاں جاری ہیں۔انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کے مطابق 1989 سے لے کر اب تک تقریبا 1،00000 کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ جموں کشمیر کی سماجی تنظیموں کے اتحاد کے مطابق جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے افراد کی تعداد 8000 سے زائد ہو چکی ہے۔
یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ پاکستان نے کبھی کشمیر پر قبضے کا عندیہ نہیں دیا بلکہ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے مگر بھارت کا اب یہ موقف ہے کہ کشمیر سے اقوام متحدہ کا کوئی تعلق نہیں۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں فروری کا مہینہ خاص اہمیت کا حامل ہے اس مہینے میں کشمیر کی آزادی کے سرخیل مقبول بھٹ کو بھارتی حکومت نے سزائے موت دی تھی۔ مقبول بھٹ کشمیری آزادی کی تحریک جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے بانی تھی جنہوں نہ صرف کشمیری قوم کو منظم کیا،
بلکہ انہیں خالصتا قومی بنیادوں پر مدافعانہ مسلح جدوجہد کی تیاری کی تحریک دی۔ان کی تحریک کی مقبولیت سے ہندوستان اس قدر خائف تھا کہ ان پر ایک بھارتی خفیہ ایجنسی کے افسر کے قتل کا الزام لگا کر گرفتار کیا، انہوں نے ہندوستان کے ایسے تمام الزامات کی تردید کی۔اس کے باوجود ان کو 11 فروری 1984 کو تہار جیل دہلی میں پھانسی دے دی گئی اور میت ان کے خاندان کے حوالے نہیں کی گئی۔ اس واقعہ نے بھارت مخالف جذبات کو ہوا دی۔جس کے بعد کشمیر میں ہنگاموں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کشمیری مقبول بٹ کو جدوجہد آزادی کا ہیرو ماننے لگے۔ اور اس واقعہ کے چند سالوں کے اندر اندر کشمیریوں میں آزادی کی تحریک منظم اور مؤثر انداز میں ابھر کر سامنے آئی34 سال گزرنے کے باوجود کشمیری اس جذبے سے مقبول بٹ کی برسی مناتے ہیں۔ ہر سال فروری میں قابض بھارت کشمیر میں مظاہروں اور مسلح کاروائیوں سے نپٹنے کے لئے خصوصی اقدامات کرتا ہے
اسی مہینے میں کشمیری افضل گرو کی برسی بھی مناتے ہیں۔ کشمیری نوجوان افضل گرو ایک میڈیکل کے طالبعلم رہ چکے تھے۔ اور وہ مقابلے کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔ ان کو 13 دسمبر 2001 کو بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے مبینہ حملے میں ملوث ہونے کے نام نہاد الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بھارتی سیکیورٹی اداروں کے مطابق وہ مبینہ طور پر اس حملے کے منصوبہ کار تھے۔ طویل عدالتی کاروائی کے دوران ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت بھی بھارتی حکومت پیش نہ کر سکی۔ مگر انتہا پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے سزا کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔
جس کا اعتراف خود بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان الفاظ کے ذریعے کیا ”اگرچہ افضل گرو کے خلاف اس جرم میں ملوث ہونے کی کوئی ٹھوس شہادت یا ثبوت استغاثہ فراہم نہیں کر سکا مگر بھارتی عوام کے اجتماعی احساسات اور خواہشات کی تسکین کی خاطر انھیں پھانسی دینا ضروری ہے ”۔ وہی موسم، وہی جگہ تہار جیل، الزامات بھی نئے نہیں اور مہینہ بھی وہی فروری کا۔ جو کشمیریوں پر اکثر بھاری ثابت ہوتا ہے۔ 9 فروری 2013 کو افضل گرو کو پھانسی دے دی گئی۔انہیں ان کے خاندان سے آخری ملاقات کا حق دیا گیا۔ نہ ان کی میت خاندان کے حوالے کی گئی، کہا جاتا ہے کہ انڈیا کشمیر کو ایک اور شہید نہیں دینا چاہتا تھا۔ یا پھر وہ متوقع عوامی ردعمل سے خائف تھا
مقبول بھٹ کی طرح ان کو بھی تہاڑ جیل میں ہی دفن کردیا گیا۔ انڈیا مخالف جذبات کو کنٹرول کرنے کی مکمل کوشش کی گئی اور کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ کشمیری عوام کے غصے، جذبات اور بر انگیختگی کو تنہا کونے کے لئے کشمیر میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی۔ کئی روز تک مقبوضہ وادی میں کوئی اخبار شائع نہ ہوا۔کشمیر میں آج بھی مقبول بھٹ اور افضل گرو کی خالی قبریں ان کی منتظر ہیں
بھارت کے اس اقدام کے خلاف ہندوستان کے اندر سے بھی آوازیں اٹھیں۔ اور کہا گیا کہ افضل گرو کی پھانسی بھارتی جمہوری نظام پر بد ترین دھبہ ہے۔ ان کی ہلاکت پر کشمیر میں مظاہروں کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے۔ بھارت میں تھنک ٹینک یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت کواس پر غور کرنا چاہئے کہ وہ کیا عوامل ہیں جو کشمیری نوجوانوں کو مسلح جدوجہد پر آمادہ کرتے ہیں۔جب کہ طاقت کا استعمال اس مسئلے کی شدت میں اضافہ کر رہا ہے. پانچ اگست 2019 کو بھارتی پارلیمان نے سیاسی دھوکہ دہی سے ایک بار پھر تاریخ کو دہرایا جب اس نے کشمیریوں کے وہ تمام حقوق چھین لیے جن کی اس نے سن سنتالیس میں جموں و کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے پر آئین ہند میں ضمانت دی تھی۔ ایک صدارتی حکم نامے سے کشمیر کو پھر ایک ایسا گہرا زخم دیا گیا کہ اس کو شاید صدیاں بھی نہیں بھر پائیں گی۔
بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے اپنے قیام کے فورا بعد ہی بر صغیر کو کھل کر یہ پیغام دیا تھا کہ وہ ہندوستان کو مکمل طور پر بدل دیں گی اور 700 سال تک حکمرانی کرنے والے مسلمان بادشاہوں کی ہر اس شے کو مٹا دیں گی جو انہیں اپنیمذہب، نظریے یا ثقافت کے مترادف محسوس ہو رہی ہو۔کشمیریوں کی شناخت اور حقوق پر پھر ایک بار شب خوں مارا جائے گا۔
کشمیریوں پر سخت پہرے بٹھانا، جسمانی طور پر گھروں میں قید کرنا اور فون یا انٹرنیٹ کو سرے سے ناپید کرنا اور پھر تقریبا ایک ہزار کلو میٹر دور اس قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنا، یہ سب کچھ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک نے کیا اور محصور کشمیریوں کو اُف تک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
کل تک جموں و کشمیر کے جو پانچ سو رہنما بھارت کے ساتھ حکومت میں شامل بھارت کا ترنگا لہرا رہے تھے ان کو گرفتار کیا گیا اور معمولی ملزموں کی طرح ان کے گھروں کو قیدخانوں میں تبدیل کیا گیا۔
اب کس میں طاقت گفتار ہے اے خدا
جو تیرے تھے وہ بھی پابہ جولاں ہوگے
کشمیریوں کو اس بات پر حیرانی نہیں ہوئی کہ حکومت بھارت نے کس طرح ان کے حقوق پر پھر ایک بار شب خون مارا بلکہ حیرانی اس بات پر ہے کہ جن سیاست دانوں نے بھارت کا پرچم گذشتہ سات دہائیوں سے ہاتھوں میں لے رکھا تھا وہ پرچم لے کر حراست میں رکھے گئے اور جب شیخ عبداللہ کے صاحبزادے اور تین بار ریاست کے وزیر اعلی فاروق عبداللہ کو نیشنل چینل پر روتے ہوئے دکھایا گیا تو اس سے اگرچہ ان کے کارکنوں میں ان کے لیے ہمدردی کا جذبہ امڈ آیا وہیں آزادی پسند مسلم آبادی میں ان کے خلاف نفرت کا ایک طوفان امڈ پڑا اور موجودہ حالات کے لیے ان کو اور ان کے خاندان کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔کشمیریوں کو بھارت کے سیاست دانوں سے کوئی گلہ نہیں اگر شکوہ ہے تو وہ ایک ارب بھارتیوں سے جن سے اس زیادتی پر وہ شدید ردعمل کی امید رکھتے تھے۔ کشمیریوں کی بیانتہا دل آزاری ہوئی ہے بلکہ ان عالمی اداروں پر حیرت ہو رہی ہے جو ایک مصلحت کے تحت کشمیریوں کو مرتے دیکھ رہے ہیں اور ان مسلمان مملکتوں پر افسوس بھی جو اس اقدام کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے رہے ہیں۔
کشمیر کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ انہیں اپنے وجود کی اب ایک بڑی لڑائی لڑنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا بھلے ہی یہ لڑائی مزید کئی نسلیں کیوں نہ کھا جائے اور بھلے ہی اس میں کشمیر کیا، پوری دنیا کیوں نہ مٹ جائے۔
کشمیر کو اپنے وجود، اپنی شناخت اور اپنے حقوق کی لمبی لڑائی شاید کئی صدیوں تک لڑنا ہوگی اور کشمیری قوم خود کو ایک بار پھر اس جدو وحید کے لیے تیار کرنے میں جٹ گئی ہے۔
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا