Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

کا بینہ ردوبدل سے تبدیلی نہیں آئے گی!

تبدیلی میں بڑی روکاوٹ مافیا ہے !

تبدیلی میں بڑی روکاوٹ مافیا ہے !

کا بینہ ردوبدل سے تبدیلی نہیں آئے گی!

تحریر:شاہد ندیم احمد
تحریک انصاف جب سے حکومت میں آئی ہے ،کا بینہ میں متعدد بار تبدیلیاں کی گئی ہیں،ایک بار پھروزیر اعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کے ارکان کے محکموں میں ردو بدل کا اعلان کردیاہے، جس کے مطابق شیخ رشید احمد کو ریلوے کی جگہ وزارت داخلہ، محمد اعظم خان سواتی کو انسداد منشیات کے بجائے ریلوے کا قلم دان سونپ دیاگیا ہے، اس کے علاوہ بھی کا بینہ میں بہت سی تبدیلیاں ہوئی ہیں،یہ حکمرانوں کے فیصلے ہیں، انہیں حق حاصل ہے کہ اپنی کا بینہ میں بوقت ضرورت تبدیلی کرتے رہیں، تاہم شیخ رشید کو ریلوے کے بجائے وزارت داخلہ کا قلم دان سونپے جانے سے یہ تصور ابھر کر سامنے آتا ہے کہ حکومت نے حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک سے متعلق جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے اور اب شاید جلسے جلوسوں اور احتجاجی ریلی روکنے کے لیے حکومت سخت رویہ اپنائے گی۔
اس میں شک نہیں کہ پی ڈی ایم کی قیادت خاص طور پر سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، ان کی دختر نیک اختر محترمہ مریم نواز اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا حکومت مخالف رویہ خاصا جارحانہ رہا ہے ، جبکہ حکومت ان کے مقابل خاصی کمزور، بے بس اور مدافعانہ پالیسی پر عمل پیرا دکھائی دے رہی ہے،مگر سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن احتجاجی تحریک کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل کرپائے گی؟حکومتی وزراء کی نالائقیوں، نااہلیوں کے باوجود سچی بات یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے احتجاجی تحریک فوری طور پر مطلوبہ نتائج دیتی نظر نہیں آرہی ہے،البتہ اس دوران کوئی حادثہ ہوجائے تو پانسہ ضرورپلٹ سکتا ہے، ویسے بھی پاکستان کی تاریخ بحرانوں،حادثات اورسیاسی واقعات سے بھری پڑی ہے۔
پا کستانی سیاست میں کبھی کچھ بھی ہو سکتا ہے ،اس لیے اپوزیشن قیادت سب کچھ دائو پر لگا کریہی چاہتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے فوری طور پر چھٹکارا حاصل کیا جائے ،جبکہ میاں نوازشریف عمران خان سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے بڑوں کو بنیادی اور اصل مسئلہ سمجھتے ہیں۔اس بنیادی نکتے پر پیپلزپارٹی اور( ن) لیگ میں واضح طور پر وہی فرق ہے جوآصف زرداری اور نوازشریف کی سیاست میں ہے۔ اس تناظر میں میاں نوازشریف کی جانب سے اپوزیشن کے جلسوں کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے عہدیداروں پر تنقید کا عمل جاری ہے اور شاید اس وقت تک جاری رکھا جائے گا

کہ جب تک ان کے اطمینان کے لیے مناسب عملی اقدامات نہیں کیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے مریم نواز کا کہنا بجا ہے کہ اُن سے رابطے کیے جارہے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود فریقین کے درمیان معاملات کسی ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچ پارہے ہیں۔
سیاست میں اختلافی معاملات احتجاج کی بجائے مکالمے کے ذریعے ہی سلجھائے جاسکتے ہیں ، لیکن ایک طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) احتجاجی تحریک کے ذریعے دبائو بڑھارہی ہیں تو دوسری جانب پس پردہ مقتدر قوتوں سے الگ الگ مکالمہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے ، تاہم وزیر اعظم نے شیخ رشیدکو

وزیر داخلہ بنانے کے بعد پی ڈی ایم تحریک سے نمٹنے کا ٹاسک سونپ دیا ہے،انہوں نے آتے ہی اپنی توپوں کارخ اپوزیشن کی جانب کر تے ہو ئے کہا ہے کہ پی ڈی ایم جو مرضی کر لے، عمران خان کہیں نہیں جا رہے ہیں،عمران خان کو اللہ نے عزت دی، وہ مینار پاکستان سے اوپر گئے اور اپوزیشن مینار پاکستان سے نیچے جائے گی۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ عمران خان سے بات نہیں ہوسکتی تو دل کے اندر کی بات باہر لائیں کہ پھر کس سے بات کرنا چاہتے ہیں،یہ صرف لوٹی ہوئی دولت بچانا چاہتے ہیں اور اپنے خلاف کیسز سے نجات چاہتے ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں

کہ پی ڈی ایم تحریک کا مقصد عوام کے نام پر ذاتی مفادت کا حصول ہے ،اس سیاسی کھیل میں اپوزیشن کا متفقہ ہدف وزیراعظم عمران خان ہیں،کیو نکہ وہی ذاتی مقصد کے حصول میںسب سے بڑی روکاوٹ ہیں،اپوزیشن کا خیال ہے کہ اقتدار کے حصول میں حکومت اوراسٹیبلشمنٹ میں کوئی خلیج پیدا کرلے گی، اگر ایسا ہوگیا تو کہانی بدل بھی سکتی ہے، لیکن ایسا ہونے کا امکان بہت کم نظر آتاہے، کیونکہ وزیراعظم اوراسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کی ضرورت بنے ہوئے ہیں،اس لیے فی الحال حکومت جانے کا کوئی امکان نہیںہے، تاہم اپوزیشن کا احتجاج رائیگاں بھی جانے والا نہیں ہے،

پس پردہ مقتدر قوتوں سے جاری مکالمہ ،اپوزیشن کیلئے کسی بھی وقت کوئی رلیف پیکیج لا سکتا ہے۔اس صوررت حال کے پیش نظر وزیر اعظم کی جانب سے کا بینہ میں تبدیلیوں کا مقصد صرف اپوزیشن کو سبق سکھانا ہی نہیں ،بلکہ حکومتی کا کردگی میںبہتر ی لاناہے۔ وزیر اعظم حکومتی ٹیم کے کپتان ہیں اور بدلتے حالات کے تناظر میں کپتان تبدیلی کا حق رکھتا ہے ،تاہم صرف کا بینہ میں ردوبدل کرتے رہنے سے تبدیلی نہیں لا ئی جاسکتی، حکومت ٹیم کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہئے کہ اُن کی بری کارکردگی نے اپوزیشن کے حوصلے بلند کئے ہیں۔ اس بیانیہ سے اب عوام کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا کہ اپوزیشن اپنی لوٹ مار بچانے کے لئے این آر او مانگ رہی ہے، اب کچھ کر کے دکھانے اور عوام کے حالات کو بہتر بنانے ہی سے بات بنے گی۔

Exit mobile version