’’ایک اور عہد و پیما کا پیکر آسودہ خاک ‘‘ 93

’’ ایک اور عہد ساز شخصیت الوداع‘‘

’’ ایک اور عہد ساز شخصیت الوداع‘‘

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک خبر جو انتہائی افسوسناک تھی پر نظر پڑی تو مجھے تقریبا 31 سال قبل جب راقم صحافت کی حرف ابجد سے شناسائی کیلئے تحرک کر رہا تھا کا منظر سامنے آ گیا، جو کچھ یوں تھا کہ راقم اپنے بھائی کا پاسپورٹ بنوانے کیلئے نیو سیٹلائٹ ٹائون سرگودھا دفتر گیا تو ان دنوں سخت گرمی کا موسم اور حبس تھا اور اس وقت سرگودھا ڈویژن کے اضلاع خوشاب، بھکر، سرگودھا ، میانوالی کے علاوہ منڈی بہاوالدین، جھنگ، لیہ یعنی 7 اضلاع کے مکینوں کے پاسپورٹ سرگودھا سے بنتے تھے اس وجہ سے آفس میں انتہاء کا رش تھا تو راقم پاسپورٹ آفس کے انچارج کے کمرے میں چلا گیا جہاں پہلے سے کچھ لوگ بیٹھے تھے اور چائے کا دور چل رہا تھا، تو راقم نے متعلقہ افسر کو اپنا تعارف بطور صحافی کرایا

تو کمرے میں پہلے سے موجود ایک انتہائی خوش اخلاق شخص نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کرسی پر بٹھایا اور پاسپورٹ کے فارم میرے ہاتھ سے لے کر افسر موصوف کو انتہائی دھیمے لہجے میں کہا کہ (نوجوان) یعنی میرا کام پہلے کرے، تو افسر موصوف نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے فوری فارم پر دستخط کر کے مجھے دیئے اور کہا کہ یہ سامنے کمرے میں جمع کروا کر رسید حاصل کر لو، میں فارم حاصل کر کے باہر نکلنے لگا

تو متذکرہ شخص جس نے افسر مجاز سے فارم دستخط کروا کر دیئے تھے بھی اٹھ کر میرے ساتھ باہر آ گیا اور مجھ سے فارم پکڑ کر وہ لمبی قطار میں لگنے کی بجائے اس کمرے میں داخل ہو گیا جہاں فارم جمع ہو رہے تھے، میں باہر کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ متذکرہ شخص شاید اس دفتر کا ملازم اور مجھے صحافی ہونے کی بناء پر پروٹوکول دے رہا ہے، تھوڑی دیر بعد وہ شخص واپس آیا اور مجھے رسید تھماتے ہوئے انتہائی شفیق لہجہ میں کہا کہ 15 دن بعد آ کر سامنے والے کمرہ کی کھڑکی سے پاسپورٹ حاصل کر لینا، ساتھ ہی موصوف نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا

کہ وہ حافظ لیاقت علی ضیاء اور روزنامہ نوائے جمہور سرگودھا کا ایڈیٹر ہے۔ یہ میری اور حافظ لیاقت علی ضیاء کی پہلی ملاقات تھی، جس نے اتنا اثر چھوڑا کہ میں ان کا گرویدہ ہو گیا، اور پھر ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ تا وقت آسودہ خاک ہونے تک جاری رہا۔ حافظ لیاقت علی ضیاء نہ صرف صحافی تھے بلکہ وہ اتحاد بین المسلمین، بین المذاہب ہم آہنگی کے علمبردار ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی پر کشش اور اخلاص سے بھرپور شخصیت کے مالک تھے۔ وہ انٹر نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے بانی اور آخری وقت تک آرگنائزر رہے، ان کی صلاحیتوں سے اہل سرگودھا ہی نہیں

ملک بھر کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا، کیونکہ حافظ لیاقت علی ضیاء نے اتحاد بین المسلمین، بین المذاہب ہم آہنگی، انٹر نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے پلیٹ فارم سے ملک بھر کے بڑے شہروں میں سینکڑوں مثالی پروگرام کرائے جن میں ملک کی جید شخصیات نے عوام کو فرقہ واریت کے خاتمے، لا قانونیت، دہشتگردی کے خاتمے، انسانی حقوق کے تحفظ کے ساتھ بھائی چارے اور امن سے رہنے کا سبق دیا، حافظ لیاقت علی ضیاء اپنے تئیں ایک انجمن کا نام تھا، جو ہر دور میں تمام مکاتب فکر بالخصوص وقت کے حکمرانوں میں وسیع حلقہ احباب رکھتے تھے

اور دوستوں کے دکھ درد میں شریک ہونا اپنا فرض سمجھتے تھے، جب پیر فضل حق جمعیت مشائخ پاکستان کے صدر تھے اس وقت حافظ لیاقت علی ضیاء ان کے ساتھ مرکزی جنرل سیکرٹری کے عہدے پر کام کرتے رہے، موصوف بیک وقت صحافتی، انسانی حقوق اور مذہبی ہم آہنگی سمیت دیگر شعبوں میں کام کرنے والی متعدد تنظیموں سے وابستہ رہے، وہ سچے عاشق رسول بھی تھے، ان کی وفات سے ملک بالخصوص اہل سرگودھا ایک شخص سے محروم ہو گئے جس نے معاشرے کو سدھارنے اور نیک سمت چلانے کیلئے ملک بھر میں کام کر کے سرگودھا کا نام روشن کیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں