100

‏کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں نہ ہو بلا سے خریدار ۔آؤ سچ بولیں

‏کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں نہ ہو بلا سے خریدار ۔آؤ سچ بولیں

انگریزوں کی غلامی سے لیکر آزادی کے بعد پاکستانی عوام نے خود ہی دو خاندانوں کی غلامی میں رہنا پسند فرمایا اور آج پاکستان دنیا کا پسماندہ ترین ملک ھے بس پاکستانی عوام کو اللّہ تعالیٰ عقل و شعور سے مالامال فرمائے یہ بہت جلدپھسل جاتے ہیں 1857 سے لیکر 1947 تک 20 لاکھ شہادتوں سے بھی اگر انہیں شعور نہ ایا کیونکہ آزادی کے بعد سے ہم چوروں اور لٹیروں کو آزمارہے ہیں اور ماشاءاللہ اب تو ایک عدالتی صادق اور امین شخص کوازمانے کی حسرت بھی ڈھائی سال ہونے کو ہے ھر طرف سے تبدیلی شدت پسندوں کو ایک محسوس طبقہ ازمارہے ہیں سوشل میڈیا کی نہیں اگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو ان ڈھائی سالوں میں ملک اورقوم کا مذہبی اورمعاشی لحاظ سے جو نقصان ہوا وہ تاریخ کاایک سیاہ باب بن چکا ہے
لیکن مؤرخ مذید بھی لکھے گا کہ جس وقت مہنگائی اپنے عروج پر تھی مڈل کلاس کی ایک کثیر تعداد غربت کی لکیر کے نیچے جارہی تھی اور ٹھیک اسی وقت ملک کا حاکم اپنے ولائتی کتوں کو امپورٹڈ کھانا کھلانے میں نہ صرف مصروف تھا بلکہ عوام کے صبر کا امتحان لینے کیلئے اپنی اور اپنے کتوں کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا رہا اور دوسری طرف اس کے مقابلے میں ریاست مدینہ کا وزیر داخلہ اور سابقہ مجاہد ختم نبوت شیخ رشید کسی خاتون کے جسم سے کھیل رہا تھا جس کی فوٹیج کا سوشل میڈیا پہ خوب چرچا رہا لیکن لال حویلی پہ اس سلسلے میں مکمل سکوت طاری رہا

خیریہ عیش وعشرت شراب شباب اورکباب کی قیصے کہانیاں تو پارلیمنٹ کے شہزادوں اور مقتدر اداروں کی شاہوں کی تاریخی سلسلے ہیں جو مدتوں سے چلی آرہی ہے توبہ توبہ اور موجودہ برسراقتدار پارٹی اوران کے دیگر رہنماوں کو اللّٰہ پاک ہدایت عطا فرمائے یہ لوگ بات شروع کرنے سے پہلے درود شریف اور قرآن مجید کی آیت پڑھتے ہیں اور اور اس کے بعد وزیر اعظم سمیت سب جھوٹ پہ جھوٹ بولتے ہیں ان کے جھوٹ کی نحوست سے پاکستان دن بدن تباہی کی طرف جا رہا ہے
ایک پاکستانی نیا نیا سعودی عرب گیا۔ ایک دن سڑک پرنکلا تو دو سعودیوں کو دیکھا جو عربی میں ایک دوسرے سے کچھ کہہ رہے تھے پاکستانی سمجھا کہ شاید کوئی واعظ دے رہے ہیں، ان کے پاس گیا اور ہاتھ اٹھا کر آمین، ثم آمین کہنا شروع کردیا سعودیوں نے جوتی اتاری اور اس کے سر پر گیارہ مرتبہ رسید کرکے کہا کہ بے ایمان کے بچے ہم ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں اورتم امین ثمہء آمین کہہ رہے ہو۔۔۔۔۔!
صحافی جب تک حقیقت پرمبنی تبصرےتجزیئے اورجائزے میڈیا پر پیش نہیں کریں گے تب تک ملک میں بہتری نہیں آسکتی اورنہ ہی بہترین قیادت سامنے آسکتی ہے یہاں ہر کوئی اپنےمفاد کی بات کرتاہےملک اور قوم کی کسی کوفکرنہیں کوئی بھی آئین کو فالو نہیں کرتا جس کی وجہ سےپاکستان آج بنانا ریاست بناہواہے اوراب تو ہمیں افغانستان بھی دہمکیاں دینے لگا ہے میرے مطابق تو تحریک انصاف سرے سے ہے ہی نہیں تو تحریک انصاف کی خارجہ پالیسی کہاں سے آگئی یہ تو ناانصافی کرنے والے مجرموں کو تحفظ دینے اور کرپشن کی دفاع کی تحریک ہے انکی خارجہ پالیسی تو کوئی اور تیار کرتاہے

اور ان کے لیےفنڈ بھی وہی لوگ جاری کرتےہیں کیا مسلمان شاہ سلمان اور ابن سلمان جسے ہوتے ہیں ان میں ایک بھی رویش محمدی نہیں ہے ہمیں اسرائیل سے نہیں اسرائیل کے چمچے کھڑچوں سے خطرہ ہے سی پیک کے دشمن صرف امریکہ انڈیا اسرائیل یا عرب امارات ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی موجود ہیں بھاڑ میں جائیں فلسطینی اور بھاڑ میں جائیں اسرائیلی اور ڈوب مریں سعودی انکی فکر کرنے کی کیا ضرورت جنہیں اپنے ملک اپنے جغرافیہ کی فکر نہیں وہ فلسطینی ریاست کے خیرخواہ قطعی نہیں ہوسکتے پاکستان کا ساحل سمندر چھبیس سو کلومیٹر سے سکڑ کر نو سو کلومیٹر رہ گیا

مگر کسی کو اس کی فکر نہیں ہے اور جو اس کی فکر کرے وہ.محب وطن نہیں ہے اور جو اس جغرافیہ کی بات کرے وہ افواج پاکستان کے خلاف ہائبرڈ وار کرنے والا ملک دشمن کہا جاتا ہے جعلی ڈوزئیر نقلی میپ بنا کر ملک کے مستقبل کو بھی داو پر لگادیا گیا ہے چین انکی ہاں میں ہاں ملاتا ہے مگر چین سے چین نہیں ملتا چین نے چند سال میں شنگھائی جیسا ورلڈ لارجسٹ سٹی بنادیا مگر چین پچیس سال میں گوادر نہیں بنا سکا کیونکہ ملک دشمن پاکستان کے اقتدار اختیار اور ادارہ پر قابض ہیں چین کو پاکستان کی فکر کرنی چاہیئے پاکستان کے اقتدار اور بااختیار ادارہ پر قابض مجرموں کی نہیں

چین کو پاکستان میں ہمارے ساتھ ہوتی ناانصافی پر خاموش نہیں رہنا چاہیئے چین اگر پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے کچھ کرنا چاہتا ہے تو مجھے میرے حق و حقوق لیکر دے چین کا چین باوجوا ماجوا اینڈ نیازی زرداری اینڈ اعوان فراڈ فرینڈز سے نہیں اس ملک وملت سے جڑا ہے چائینہ حق صدق انصاف کا قتل عام کرتے مجرموں کو سپورٹ نہ کرے بلکہ چائینہ حق صدق انصاف کا ساتھ دے حقوق دینے دلوانے کے لیے منصفانہ کردار ادا کرے چائینہ ہمارے پیار کاجواب پیار سے دے یہ ہی چائینہ کیلئے اور پاکستان کے لیے بہتر ثابت ہوگا جن پنگ صاحب چائینہ کو حق صدق انصاف کے احیاء کی

فکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ حق صدق انصاف کا فلسفہ انسانی معاشرے کے قیام کے لیے از حد ضروری ہے جبر جرم اور ظلم کی حکومت ناانصافی خیانت کی عدالت اور کذابت غضابت کی عادت انسان وانسانیت کیلئے بہت ہی زیادہ خطرناک ہے سعودی عرب پر ایسی حکومت قائم ہے جسکی عقل گھاس چرنے گئی.ہوئی ہے اور وہ سعودی عرب کے وجود کی ہی دشمن بن چکی ہے شاہ سلمان سے اچھا سلمان خان ہے جس کا کردار اور اظہار ایک جیسا ہے مگر سعودی عرب کے اقتدار نشین صبح کچھ شام کچھ ہیں یہ انڈیا کی بندیا میں قید ہیں اور پاکستان کے چاپلوسوں کے اسیر ہیں یہ فلسطینی ریاست کے حمایتی ہیں اور اسرائیلی حکومت کے فرمان بردار ہیں یہ یمن کے دشمن ہیں اور حوثیوں کے سپورٹر ہیں
یہ اسلام کے نام لیوا ہیں اور حق صدق انصاف کے منکرین ہیں ہم تو فلسطین اور اسرائیل کے مسئلہ پر منصفانہ سوچ رکھتے ہیں مگر ہماری سوچ کی کسی کو پرواہ نہیں ہم کہتے ہیں کہ ایک ریاست ہو یا سو ریاستیں یاہزار مگر ہر ایک ریاست میں حق صدق انصاف کا قیام ہونا چاہیے مگر دنیا میں ایک بھی ریاست ایسی نہیں ہےجسمیں حق صدق انصاف کا قیام ہے حق صدق انصاف کا قیام انسانیت کے دستور کا احیا لازمی ہونا چاہیے اسرائیل ہو فلسطین سعودی عرب ہو یا انڈیا جو بھی ہو حق صدق انصاف کا منکر ہے ہم اس کے منکر اور دشمن ہیں کیونکہ حق صدق انصاف کا منکر مجرم ہے اور مجرموں کامحاصرہ اور ظالموں کاخاتمہ ہمارا مقصد ہے ہم حق صدق انصاف کا احترام کروانے کے لیے کاغذ پر قلم سے برسرپیکار ہیں
اور یہ ہی انسانیت کی فلاح و بہبود کا اصلی فلسفہ ہے یہ ہی اصل انسانی ضرورت ہے اور یہی اصل تہذیب اور یہی اصولی تمدن ہے اس کے منکرین کسی صورت انسان نہیں ہوسکتے مسلمان تو بہت ہی زیادہ دور کی بات ہےاب ملک انٹرویوز تقریروں انڈوں کٹوں مرغیوں پر چلے گا نہ روزگار نہ معیشیت نہ نوکریاں نہ گھر مہنگائی ھی مہنگائی بھائی لوگ انٹرویوز پر بھی شادیانے بجائیں گے سائیں کیا کمال انٹرویو دیا واہ ڈیزل پٹرول کے ریٹ یکم سے پھر بڑہ رھے ھیں۔ بندر کو جنگل کا بادشاہ بنانے کے بعد بادشاہ سلامت کا یہی کام ھوتا ھے ایک درخت سے دوسرے درخت پر اس ٹہنی سے

اس ٹہنی پر چلانگیں مارنے کے سوا اور کچھ نہی کرنا۔ھمارے بھائی لوگ بندر کے اچل کود پر خوش ھورھے ھیںسچ پوچھیں تو مجھے ایک سیاستدان کے طور پہ عمران کے ضائع ہونے کا بہرحال دکھ ہے ،، وہ ہماری سیاست میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھا ،، وہ جاگیردار تھا نہ ہی سرمایہ دار ،، وہ بہت کچھ کر سکتا تھا جہاں اتنا صبر کیا کچھ اور کرلیتا عوام پر بھروسہ رکھتا اور عوامی طاقت سے اقتدار میں آتا مگر اس نے گٹھ جوڑ کرکے اقتدار میں آنا مناسب سمجھا اور پھر اقتدار ملتے ہی وہ سالہا سال سے محنت کرنے والے عمران خان کا خود ہی دشمن بن گیا ،،

، اس نے ہر وہ کام کیا جس کی ہر تقریر میں اس نے ڈٹ کےمخالفت کی اور ایسا کوئی بھی عمل نہ دہرایا جس کا وہ پوری سیاسی زندگی میں پرچار کرتا رہا،،، اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا اس نے 22 سالہ محنت کو صرف 22 ماہ میں ہی تباہ و برباد کر کے رکھ دیا آج وہ نہ خود سے آنکھ ملا سکتا ہے نہ ہی عوام سے ہاں البتہ یوتھیئے ناچتے آئے تھے اور ناچتے ہی رہیں گے چونکہ یہ لوگ عمران کے فین تھے نہ کہ سیاسی کارکن لیکن یہ بات پوری دنیا کے حکمران جانتے ہیں کہ ہندُووں کا بھگوان اور پی ٹی آئی کا کپتان دونوں ہی جھوٹے ہیں لیکن وہاں ہندُو نہیں مانتے اور یہاں پی ٹی آئی والے نہیں مانتے
سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزرگئیدنیا تیری بدل دے۔۔۔۔۔وہ سجدہ تلاش کرہمارے ہاں دیہاتوں میں اگر کوئی کمی کسی وڈیرے کے ڈیرے پر چند دن بیٹھ لے تو اس کی چال ڈھال میں فرق آجاتا ہے تو سیانے لوگ چٹکلے مارتے ہوے کہتے ہیں لگدا اے کھوتی تھانیوں ہو آئی اے بس یہی صورت حال اج کل ان منصور صاحب کی بھی ہے جس دن سے خان صاحب کی انٹرویو کی ہے اسکا سٹائل اور بات کرنے کا انداز ہی بدل گیا ھے لگتا ھے اس کو بھی شیخ رشید کے ہاتھوں گیٹ نمبر 4 سے سندیسہ أ گیا ھے یہ جو تیری بہکی بہکی باتیں ھیں یہ چغلی کھا رھی ھیں
دنیائے

صحافت کہاں سے کہاں پہنچی اور ہمارے ہاں یہ گندے جوہڑ کے مینڈک لفافے ابھی تک ان جھوٹ خودساختہ و من گھڑت خبروں سے فارغ نہیں ہو رہے ہیں ، ابھی چند ہی روز قبل کی بات ھے کہ کس طرح بھارت نے عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر سینکڑوں ہزاروں جعلی ویب سائٹس بناکر سالہاسال جھوٹی اور غلط معلومات فراہم کر رہا تھا مگر پاکستانی اداروں نے یہ سب کچھ طشت از بام کرنے کے باوجود بھی پاکستانی الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ان بے ضمیروں نے اس پر کوئی پروگرام کرکے اپنے عوام کو آگاہ کرنا یا اپنا چھوٹا سا احتجاج انٹرنیشنل میڈیا پر نوٹ کرانا تو درکنار اُف تک نہیں کی ،
ویسے بدلتے چاند کو لوگ پہچان لیتے ہیں حقیقت یہی ھے کہ اس حکومت نے غریب عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے، ہوشربا مہنگائی، ضروریات زندگی انسانی دسترس سے باہر، یہی ہے وہ خوفناک اوربھیانک تبدیلی جس کے لیے 22 سال عمران خان نے جدوجہد کی اب اپوزیشن بھرپور عوامی طاقت کیساتھ پی ڈی ایم کی شکل میں میدان میں اتری ھے ویسے کوئی کتنا بھی پروپیگنڈہ کرے جلسہ گاہ میں شرکاء کی تعداد بھلے کتنی ہو لیکن آج کل میڈیا کا دور ہے عوام گھر بیٹھے میڈیا پرجلسے کا سارا نظارہ کرتے ہیں آزاد ذرائع سے شرکاء کی تعداد تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ تھی

۔ اس یخ بستا ٹھند میں یہ تعداد مایوس کن نہیں۔ اب یہ حکومت کے موافقت والے تعداد کم اور اور مخالفین زیادہ بتا رہے ہیں اور اپنے اپنے پوائنٹ اسکورنگ میں لگے ہوے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کوئی مانے یا نہ باقی صوبوں کا اندازہ نہیں لیکن دو صوبوں پنجاب میں اب بھی مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک 70 فیصد اور باقی سب جماعتوں کا 30 فیصد ہے۔ اور تقریباً اس سے ملتا جلتا پی پی کا سندھ اے این پی اور جے یوآئی (ف) کا خیبرپختونخوا میں ہے جب میڈیا غیر جانبدار ہوکر انصاف کی تصویر پیش کریں گے تو عوام پسند بھی کریں گے اور دعائیں بھی دیں گے اور اگر جانبداری کا مظاہرہ کریں گے

تو آپ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے فیصلہ آپ کو کرنا ہے کسطرح چلنا ہے کیونکہ عوام پی ڈی ایم کےجلسے میں آتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ یہ کس کا جلسہ ہے بس وہ سوچتے ہیں یہ پاکستان ڈیمو کریٹک مومنٹ کا جلسہ ہے بس لفافے اب پی ڈی ایم کو ناکام گردانتے ہوئے کور کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ملک و ملت کو دھوکہ دے رہے ہیں لیکن مسئلہ صرف حکومت ہٹانے کا نہیں، آئین کی حکمرانی، آزاد الیکشنز، آزاد عدلیہ، اور فوج کے سیاسی کردار کے مستقل خاتمےکا ہے آئین کو بار بار توڑنا یا درپردہ خلاف آئین سازشیں کرنا، الیکشنز و عدلیہ پر اثرانداز ہونا،

ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے وفاقی کابینہ میں ردّ و بدل بھی موجودہ حکومت کے لیے باعث شرمندگی ہے ایک ریاست کی فوج کئی ماہ سے محاذ پر تھی اور فوجیوں کے پرانے موزوں سے شدید بدبو آرہی تھی۔‏ایک دن کمانڈر نے کہا، آج ہم موزے بدلیں گے‏فوجی خوش ہوگئے کہ شاید نئے موزے ملیں۔
‏لیکن کمانڈر نے کہا، تمام فوجی ایک دوسرے سے موزے بدل لیں اس لیے عرض ھے کہ انٹرنیشنل سروے کو اپنی جگہ پہ چھوڑو پی ٹی آئی کے فیس بک پیج پر جو خیالی کیچڑی والی سروے ہیں وہ دیکھ لو، عنقریب ہمارا ملک سنگاپور جاپان اور تائیوان کو ترقی میں کراس کر دے گا جس کے لیے عوام سبزباغ میں ابھی تک منتظرہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں