Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

قوم کی ذہن سازی کا صحیح انداز

علی تعلیم ہی میں معاشرے کی ترقی مضمر ہوتی ہے

علی تعلیم ہی میں معاشرے کی ترقی مضمر ہوتی ہے

قوم کی ذہن سازی کا صحیح انداز

کاپی پیسٹ
ہم عالم کے مسلمانوں کے لئے ایک بہترین سبقچند ماہ پہلے ترکی کے صدر رجب طيب اردوگان نے ايک بہت بڑے مجمع ميں تقرير کرتے ہوئے ايک واقعہ سنايا، مجمع نے ٹکٹکی باندھے اسے سنا۔ شائقين کے ليے يوٹيوب پر وہ تقرير موجود ہے۔ راقم السطور وہ واقعہ يہاں من وعن اردو ميں بيان کرنے کے بعد اس پر ايک مختصر تبصرہ پيش کرے گا۔ پہلے واقعہ پڑھيں:-
ميں آپ لوگوں کو تاريخ کا ايک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔ منگول سلطنت کے بانی چنگيز خان کے پوتے کا نام ہلاکو تھا، اس نے بغداد پر قبضہ کيا اور اسے پوری طرح لوٹ ليا۔ بعض حوالوں کے مطابق اس نے دو لاکھ اور بعض کے مطابق چار لاکھ انسانوں کو قتل کيا۔ اس نے بغداد کی ساری قديم مسجديں، مکتبے اور محل ڈھا ديے۔ يہ ساری قيامتيں ہلاکو نے برپا کيں۔ اسی ظالم حکمراں نے جو بہت دور سے آيا تھا ايک حکم جاری کيا کہ وہ بغداد کے سب سے بڑے عالم سے ملنا چاہتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی عالم ہلاکو سے ملنے کے ليے تيار نہيں ہوا، آخر کار کادہان نام کا ايک کم عمر نوجوان جس کی ابھی داڑھی بھی نہيں نکلی تھی اور ايک مدرسے ميں معلم تھا ہلاکو کا سامنا کرنے کے ليے راضی ہوگيا۔ ميں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ اس واقعے کو بہت غور سے سيريس ہوکر سنیں

ہلاکو سے ملنے کے ليے جاتے ہوئے کادہان نے اپنے ساتھ ايک اونٹ، ايک بکرا اور ايک مرغا بھی لے ليا۔ نوجوان عالم کادہان، ہلاکو کے خيمے کے پاس پہونچا، اور ہلاکو سے ملنے اندر چلا گيا۔ ہلاکو نے نوجوان عالم سے پوچھا: مجھ سے ملنے اور ميرا سامنا کرنے کے ليے بغداد والوں کے پاس تمہارے سوا کوئی اور نہيں تھا؟؟ کادہان نے جواب ديا کہ اگر آپ مجھ سے بڑے سے ملنا چاہتے ہيں تو باہر ايک اونٹ موجود ہے، اگر داڑھی والا چاہتے ہيں تو باہر ايک بکرا موجود ہے، اور اگر بلند آواز والا چاہتے ہيں تو باہر ايک مرغا بھی موجود ہے، آپ جسے چاہيں بلا ليں۔ ہلاکو بھانپ گيا کہ اس کے سامنے کھڑا ہوا شخص کوئی عام آدمی نہيں ہے۔ تب ہلاکو نے اس سے پوچھا، يہ بتاؤ کہ ميرے يہاں آنے کی وجہ کيا ہے؟
نوجوان نے اسے بہت گہرا جواب ديا، اس نے کہا:- ہمارے اعمال اور ہمارے گناہ تمہيں يہاں لائے ہيں، ہم نے اللہ کی نعمتوں کی قدر نہيں کی، اس کی نافرمانيوں ميں آگے بڑھتے گئے۔ دنيا، مال و دولت اور زمين جائيداد ہمارے دلوں ميں رچ بس گئے، اس ليے اللہ نے آپ کو ہمارے پاس اپنا عذاب بناکر بھيجا ہے تاکہ اس نے ہميں جو نعمتيں دی تھيں وہ ہم سے واپس لے لے۔يہ جواب سن کر ہلاکو نے دوسرا بڑا عجيب سوال کر ديا، مجھے کون يہاں سے نکال سکتا ہے؟نوجوان نے جواب ديا:- جب ہم نعمتوں کی قدر جان ليں گے، ان کا شکر ادا کرنے لگيں گے، اور آپس کے اختلافات ختم کرليں گے، تو اس وقت پھر آپ يہاں ہرگز نہيں رہ سکيں گے۔

تبصرہ:-
اس وقت مسلمانوں ميں ايک بہت بڑی بيماری يہ پھيلی ہوئی ہے کہ دوسری اقوام پر آنے والی قدرتی آفتوں کو تو وہ پورے يقين کے ساتھ اللہ کا عذاب قرار ديتے ہيں ليکن اپنی حالت کی بے انتہا خرابی کو بھی احتساب کی نگاہ سے نہيں ديکھتے ہيں۔ حالانکہ ہماری تاريخ ميں ايسی بہت سی حکايتيں ہيں جو خود احتسابی کا احساس ابھارتی ہيں۔

رجب طيب اردگان ترک قوم کو ايک نئی اٹھان کے ليے تيار کررہے ہيں، وہ اس طرح کی حکايتوں کی اہميت کو بخوبی سمجھتے ہيں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے ليے بھی اس حکايت ميں بڑا سبق ہے۔ اللہ کے تنبيہی عذابوں کو دوسروں کے يہاں نہيں بلکہ خود اپنے يہاں ديکھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ غفلت اور بے عملی کے پردے اور زيادہ دبيز ہوجائيں گے، اور صبحِ اميد اور دور ہوجائے گی۔
ترسیل ابن بھٹکلی بشکریہ ہفت روزہ دعوت

Exit mobile version