تبدیلی میں بڑی روکاوٹ مافیا ہے ! 93

سیاست کب تک کھیل بنی رہے گی!

سیاست کب تک کھیل بنی رہے گی!

تحریر؛شاہد ندیم احمد
اس وقت پاکستانی سیاست بدمزگی کا شکار ہے، حکومت اور حزب جب سے اختلاف متوازی پٹڑی پر چل رہی ہیں، سیاسی استحکام جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) کے دور میں نظر آتا تھا، قصہ پارینہ بن گیا ہے،اپنے دور اقتدار میںان میثاقی پارٹیوں نے سیاسی بھائی چارے کی آڑ میں حزب اختلاف کا تصور نہ صرف ہوا میں اڑا دیا،بلکہ کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے پر اٹھارویں ترمیم بھی پاس کر الی تھی، وقت نے پلٹا کھایا تو یہ پارٹیاں پارلیمان سے نکل کر سڑکوں پر پہنچ چکی ہیں۔اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا ایجنڈا ہے کہ اگر اپنی حکومت نہیں تو پھر کسی اور کی کیوں؟ یہ تخت یا تختہ کا کھیل ملکی سیاست کو کس سمت میں لے جائیگا،ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا،تاہم سیاسی اختلافات کی شدت کو عالمی اور

علاقائی سیاست کے تناظر میں دیکھیں تو اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اگر سیاسی پارٹیوں کی جڑیں عوام میں ہوتیں تو انکا طرز عمل قدر مختلف ہو نا تھا۔ملک کی بحرانی کیفیت میں اشرافیہ کی موقع پرستی کھل کر سامنے آگئی ہے،منتخب حکومت اسے ایک آنکھ نہیں بھارہی، پارلیمان میں بیٹھنا پسند نہیں اورڈائیلاگ کے راستے خود ہی بند کردیے ہیں،انہوں نے دس سال جمہوریت کے نام پر اقتدار کے مزے لوٹے ہیں ،لیکن حساب دینا گوارا نہیں ، اس پر مستزاد یہ کہ احتجاج کے راستے پر چل نکلی ہے،حکومت مخالفت میں تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ حکومت گھر جائے، کوئی ایجنڈا نہیں، کوئی لائحہ عمل نہیں کہ بالفرض نئے انتخابات میں انہیں کامیابی مل بھی جائے تو یہ اقتدار میں آکر آخر کون سا نیاتیر مار لیں گے۔
حکومت اور اپوزیشن کے مابین سیاسی محاذآرائی کا اُونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا ہے، اس لئے ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کے مختلف حربے اختیار کئے جارہے ہیں اور سینٹ کے آنیوالے انتخابات دونوں فریقین کے ہدف پر ہیں۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے اپنے تئیں حکومت کو زچ کرنے اور سینٹ کے انتخابات کی نوبت نہ آنے دینے کیلئے آئندہ سال فروری کے آغاز میں اسمبلیوں سے استعفے دینے کی حکمت عملی طے کر لی ہے ،تاکہ تحریک انصاف حکومت سینٹ میں عددی اکثریت حاصل نہ کر پائے ،جبکہ وزیراعظم عمران خان نے اس کا توڑ سینٹ کے قبل ازوقت انتخابات شو آف ہینڈ کے ذریعےکرانے کا نکالا ہے جس کیلئے انہوں نے وفاقی کابینہ سے باقاعدہ منظوری بھی لے لی ہے۔
پی ڈی ایم استعفوں کے ذریعے حکومت پر دبائو بڑھانا چاہتی ہے ،مگر اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت اسمبلیوں کی خالی ہونیوالی نشستوں کے انتخابات مؤخر نہیں

کراپائے گی اور حکومت ان نشستوں پر‘ چاہے انکی مجموعی تعداد سینکڑوں میں ہی کیوں نہ ہو‘ ضمنی انتخاب کرانے کی مجاز ہوگی جس کیلئے آئین میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ،بیرسٹر اعتزاز احسن کے بقول قومی یا صوبائی اسمبلی میں صرف کورم پورا کرنے کیلئے مطلوب ارکان موجود ہوں تو اسمبلی قانون سازی کا کام برقرار رکھ سکتی ہے۔ تاہم اپوزیشن کے دعوے کے مطابق اسکے اسمبلیوں میں موجود تمام ارکان کے مستعفی ہونے کی صورت میں حکومت اور الیکشن کمیشن کیلئے اتنی زیادہ نشستوں کا ضمنی انتخاب کرانا ، ناممکن ہو جائیگا، تاہم اپوزیشن کے اس اقدام سے ملک میں سیاسی افراتفری اور انتشار مذید بڑھے گا تو اس سے ماورائے آئین اقدام کے ذریعے جمہوریت کی بساط الٹانے کے راستے ہموار ہو جائینگے جو ملکی مفاد میں بہتر نہیں ہے۔
اس وقت بدقسمتی سے حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنی اپنی انائوں کے تحت باہم مل بیٹھ کر افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے سسٹم کو اندھے کنویں کی جانب دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، حکومت اپنی جگہ ڈٹی ہوئی ہے اور پی ڈی ایم اپنی جگہ کھڑی ہے، بات جمہوریت بمقابلہ جمہوریت یعنی حکومت بھی جمہوریت کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئی ، جب کہ حزبِ اختلاف نے بھی جمہوری عمل کے نتیجے میں ہی جنم لیا ہے، دونوں ہی حکومت اپنی جگہ ڈٹی ہوئی ہے اور پی ڈی ایم اپنی جگہ کھڑی ہے۔ بات جمہوریت بمقابلہ جمہوریت یعنی حکومت بھی جمہوریت کے نتیجے میں معرضِ وجود میں
آئی، جب کہ حزبِ اختلاف نے بھی جمہوری عمل کے نتیجے میں ہی جنم لیا ہے، دونوں ہی میان سے تلواریں نکالے آمنے سامنے ہیں،، یہ خود سمجھنے والے نہیں، اُنہیں کون سمجھائے گا، ثالث کون ہو گا؟ ماضی کے ثالثوں کے دروازے جمہوریتوں نے خود ہی بند کردیے ہیں، اب کونسی تیسری قوت ایسی ملک میں ہے جو اِن دونوں جمہوریتوں کو انتہا پر جانے سے روک سکتی ہے، سمجھا سکتی ہے، دونوں کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنے کا کہہ سکتی ہے، درمیان کا کوئی ایسا راستہ نکال سکتی ہے کہ دونوں اُس پر تیار ہو جائیں،عوام پس پردہ رابطوں کے نتایج کے منتظر ہیں،قومی اتفاق رائے سے ضروری آئینی و اداراتی تبدیلیاں ہو سکتی ہیںیا پھر ایک اور ہنگامہ خیز دور کا آغاز ہو گا کہ جس میں کپتان سڑکوں پر تماشے کا تماشہ لگائے گا،آخر سیاست کب تک ایک کھیل بنی رہے گی اور سیاسی قائدین اپنا تما شہ دکھاتے رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں