تبدیلی میں بڑی روکاوٹ مافیا ہے ! 95

پوائنٹ سکورنگ کی بجائے قومی ڈائیلاگ!

پوائنٹ سکورنگ کی بجائے قومی ڈائیلاگ!

تحریر:شاہد ندیم احمد
تحریک انصاف حکومت کی طرف سے عندیہ دیا گیا کہ سینیٹ کے انتخابات مارچ کی بجائے فروری میں کرائے جاسکتے ہیں ،جس کے لئے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ایوان بالا کی نشستوں کے لئے سیکرٹ بیلٹ کی بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخاب کرانے کی بات بھی سامنے آئی، جس کے لئے بذریعہ ریفرنس سپریم کورٹ کی رہنمائی طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ،حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کردیا گیا ہے۔اس باب میں اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا مخالفانہ ردعمل سامنے آیا، جس میں سینیٹ انتخابات کے قبل از وقت انعقاد اور شو آف ہینڈز کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیاجارہا ہے۔
ایک ایسے نازک وقت میں جب کہ سرد ترین موسم میں سیاسی درجہ حرارت بڑھ چکا ہے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان شدید تناؤ موجود ہے اور دونوں جانب سے جارحانہ رویے دیکھنے میں آرہے ہیں،حکومت اور ا پوزیشن ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی ہیں اور بات چیت یا مفاہمت کے امکانات نظر نہیں آرہے،ایسے حالات میں یہ ریفرنس دائر کرنا بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے،

جن کے جوابات تلاش کرنا جمہوریت کی بقا کے لیے ازحد ضروری ہیں۔ سینیٹ کے الیکشن شیڈول کا اعلان کرنا بنیادی طور پر الیکشن کمیشن کی ذمے داری بنتی ہے، جہاں تک آئینی ترامیم کا تعلق ہے تو اس کے لیے پارلیمنٹ سے بہتر کوئی پلیٹ فارم جمہوری نظام میں موجود نہیں ہے، حکومت کیلئے بہتر ہو تا کہ پارلیمنٹ کا فورم استعمال کرتی، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کچھ جلدی میں ہے اور وقت سے پہلے سینیٹ الیکشن کروانا چاہتی ہے، جس کے لیے ریفرنس کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔
پی ڈی ایم حکومت مخالف احتجاجی تحریک اپنے زورو شور سے جاری ہے،پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ہمارے استعفے ایٹم بم ہیں، استعمال کی حکمت عملی پی ڈی ایم بنائے گی۔اپوزیشن اتحاد نے حکومت کو مستعفی ہونے کے لیے 31جنوری تک کی مہلت دے رکھی ہے ،پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اعلان کرچکے ہیں کہ 31 جنوری تک استعفے نہیں دیے گئے تو یکم فروری کو مارچ کا اعلان کریں گے اور اپنے استعفے ساتھ لے کر جائیں گے۔ سینیٹ کے انتخابات قبل از وقت منعقد کرانے کی خواہش حکومت کی ہے، جب کہ اپوزیشن جماعتیں نے اپنے استعفے تیار ہو نے کے دعویدار ہیں،

تاہم پی ڈی ایم کے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہونے کے اعلان کے باوجود بعض پارٹیوں میں خواہش نظر آتی ہے کہ ضمنی الیکشن میں حصہ لیا جائے، اس باب میں سابق صدر آصف زرداری نے میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن سے ٹیلیفون پر رابطے کئے ہیں کہ سینیٹ الیکشن سے قبل استعفے نہ دیے جائیں۔ آصف علی زرداری الیکشن کے بائیکاٹ کے حق میں نہیں،اُن کے خیال میں پی ڈی ایم سینیٹ الیکشن لڑے تو 15سے زائد نشستیں حاصل کرسکتی ہے، مگر میاں نواز شریف نے ان کے موقف سے اختلاف ہیں، جبکہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ پی ڈی ایم اجلاس میں حل کیا جائے گا۔
پی ڈی ایم جماعتوں میں استعفوں اور سینٹ الیکشن پر اختلاف رائے کے بعد حکومت مخالف تحریک کے غبارے سے ہوا نکلنے لگی ہے ،اس پروفاقی وزیر فود چوہدری کا کہنا ہے کہ سردی میں اپوزیشن کے استعفے ،دھرنا ،احتجاج فریز ہو گیا ہے، تاہم مسلم لیگ فنکشنل کے سیکرٹری جنرل محمد علی درانی نے کوٹ لکھپت جیل میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے ملاقات میں مذاکرات کی تجویز دی ہے، میاں شہبازشریف نے تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے حالات سازگار بنانے کا تقاضا کیا ہے۔

اس سے قبل میاں شہباز شریف کی جانب سے نیشنل ڈائیلاگ کی تجویز سامنے آئی تھی،لیکن اس تجویز پر سنجیدہ بات چیت کہیں نہ ہو سکی،ایک بار پھر باہمی مکالمے کی تجویز پر ملک میں سیاسی انتشار اور اپوزیشن کی بلاجواز احتجاجی تحریک سے نالاں حلقے خوش آئند قرار دے رہے ہیں،تاہم ہمارے ہاں جب بھی مفاہمت اور ڈائیلاگ کی بات ہوئی اس کا مقصد چند خاندانوں کے جرائم کو سیاسی انتقام قرار دے کر قانونی کارروائی ختم کرانا رہا ہے۔ ماضی میں بھی این آر او کا بدنام طریقہ اس مقصد سے اختیار کیا گیا، پھر میثاق جمہوریت کے بعد مسلم لیگ( ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان جو مفاہمتی ماحول پیدا ہوا ،

اس کا پہلا وار نیب کو سیاست دانوں کے جرائم کی تحقیقات سے روکنے کی شکل میں سامنے آیا، دس سال تک نیب اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر فعال رہے،ایک طرف اپوزیشن قیادت پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرنے کی بات کرتے ہیں ،جبکہ دوسری جانب پارلیمنٹ معاملات کو سڑکوں پر لارہے ہیں ، پی ڈی ایم میں شامل لگ بھگ تمام جماعتیں کل حکومت کا حصہ تھیں اور تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں آ کر اپنے تحفظات بیان کرنے کا مشورہ دے رہی تھیں،آج وہی ریاست، وہی پارلیمنٹ ہے، پھر ایسا کیا ہوا کہ جو پہلے قابل قبول تھا، آج وہی ناقابل قبول ہے۔
در اصل اپوزیشن قیادت عوام کے مسائل کے تدارک کیلئے نہیں ،بلکہ خود کو بچانے کیلئے سراپہ احتجاج ہے ،حکومت اور اپوزیشن کے مابین جاری

بدترین سیاسی محاذآرائی سے ملک میں انتشار اور افراتفری کی فضا مستحکم ہوتی نظر آتی ہے، اس فضا میں سسٹم کو استحکام حاصل نہیں ہو پائے گا ،بلکہ ملک میں انارکی کی کیفیت رہے گی ، حکومت اور اپوزیشن قائدین کی ایک دوسرے کیخلاف جارحانہ بیان بازی سے نظر آرہا ہے کہ جمہوریت کی گاڑی دوبارہ ڈی ٹریک ہو سکتی ہے ، اس لیے جارحانہ سیاست میں ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کے بجائے قومی ڈائیلاگ کی میز سجانے کی کوشش کی جائے، تاکہ ملک اور قوم کو موجودہ کشیدہ سیاسی ماحول کے پیدا کردہ حبس سے خلاصی مل سکے، اپوزیشن کو متعدد بار مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے

وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ بدعنوانی کے مقدمات ختم کرنے کا مطالبہ چھوڑ کر اپوزیشن جب چاہے وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ مذاکرات کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے پاس اپنے اپنے نکات ہیں، ان نکات کو سامنے رکھ کر قومی ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع کیا جائے ، لیکن یہ کام محمد علی درانی کے ذریعے سے نہیں ہوگا ، سیاسی کشیدگی کا خاتمہ مقتدر قوتوں کی مدخلت کا متقاضی ہے ،اس سسٹم کو بچانے کی ذمہ داری حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ مقتدر قوتوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں