سیاست میں درست راستے کا انتخاب !
تحریر:شاہد ندیم احمد
ملک کے سیاسی ماحول میں گرماگرمی بدستور جاری ہے اور سیاسی محاذآرائی کی حدت میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ،حکومت اور حزبِ اختلاف کی مسلسل شدید تر ہوتی باہمی محاذ آرائی کے باعث ملک کے بظاہر بند گلی میں پہنچ جانے کا نتیجہ کیا ہوگا اور اِس خلفشار میں قومی مفادات کو کس قدر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا؟ اِس سوال نے ہر حساس اور باشعور پاکستانی کو بجا طور پر فکرمندی میں مبتلا کررکھا ہے، دونوں جانب سے دھواں دھار بیان بازی، جس میں فریقِ مخالف کو ملک دشمن اور صریحاً نااہل اور بددیانت قرار دینے کے لئے پورا زورِ بیان صرف کیا جاتا ہے،
جلتی پر تیل کا کام کررہی ہے، اس لفظوں کی جنگ میں یہ حقیقت ذرہ برابر بھی ملحوظ نہیں رکھی جاتی کہ دوسرا فریق بھی کروڑوں پاکستانیوں کی نمائندگی کا حامل ہے، جبکہ اقتدار تو آنی جانی چیز ہے۔یہ امر واضح ہے کہ حکومت اقتدار میں رہنے اور اپوزیشن اقتدار سے نکالنے کے در پے ہے،جبکہ وزیر اعظم عمران خان اس لحاظ سے خوش قسمت ثابت ہو رہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں جو تحریک کے ذریعے حکومت کو نکالنا چاہتی تھیں ،خود اختلافات اور تضادات کا شکار ہو گئی ہیں، جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن،ٰ جن کو یہ کریڈٹ جاتا ہے
کہ انہوں نے اپوزیشن کو پی ڈی ایم کے بینر تلے اکٹھا کر دیا،کو اپنی ہی پارٹی کے اندر شدید بغاوت کا سامنا ہے۔ مولا نافضل الرحمنٰ کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ حکومتی ریشہ دوانیوں اور سازش کا نتیجہ ہے، وہ ٹھیک کہتے ہیں، لیکن اس طرح تو اس طرح کے کاموں میں ہوا کرتا ہے۔ اگر اپوزیشن حکومت کو نکال باہر کرنا چاہتی ہے تو پھر حکومت بھی انہیں نا کام کرنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرے گی، مولانا کو حفظ ماتقدم کے طور پر پہلے ہی اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنی چاہیے تھی۔
بہرحال مولانا کی اپنی پارٹی پر گرفت مضبوط ہے اور محض ان متذکرہ چارحضرات کے علم بغاوت بلند کرنے سے پارٹی کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ اصل مسئلہ اپوزیشن کے اندر مختلف معاملات پر باہمی اختلافات اور ایک صفحے پر نہ ہونا ہے، اپوزیشن کے اہداف کے بارے میں ایک ابہام پایا جاتا ہے کہ یہ خواہش تو اپنی جگہ پر ہے کہ ہم نے موجودہ حکومت کو نکالنا ہے،پہلے تو یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ یہ حکومت ایک ماہ میں فارغ ہو جائے گی،
لیکن اب استعفوں، سینیٹ اور ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے واضح طور پر اختلاف موجود ہے، استعفوں کی ٹائمنگ بھی وجہ نزاع بنی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ( ن) کے اکثر رہنما کہتے ہیں کہ لانگ مارچ کے بعد استعفے یا دھرنا دینے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے،جبکہ اپوزیشن کی کچھ جماعتیں ضمنی اورسینیٹ کے انتخابات میں حصہ بھی لینا چاہتی ہیں ، ادھر پیپلز پارٹی سے توقع رکھنا کہ استعفے دے کر سندھ حکومت سے باہر آجائے گی خام خیالی لگتی ہے، اگرچہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ہم یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہیں ،لیکن موجودہ صورتحال میں عملی طور پر ایسا ہونا نہ ممکن نظر آتا ہے۔
اس صورت حال کے تنا ظر میں حکومت اپنے تئیں خوش نظر آتی ہے کہ اپوزیشن کی تحریک اپنے ہی تضادات سے بکھر رہی ہے اور پی ڈی ایم اپنادم توڑ چکی ہے۔ دراصل اپوزیشن کے رہنمائوں نے مولانا فضل الرحمنٰ کی باتوں میں آکر اپنی حکمت عملی کے دوررس محرکات پر غور ہی نہیں کیا،مولانا پی ڈی ایم کو ایک سیاسی جماعت کی طرح چلانے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ یہ اپوزیشن جماعتوں کا ایک اتحاد ہے جس میں ہر سیاسی جماعت کا اپنا مخصوص نکتہ نظرہے ،مولانا خود پارلیمنٹ کے رکن نہ ہوتے ہوئے بھی استعفوں پہ ادھا رکھائے بیٹھے ہیں،
لیکن دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے باستعفے دینا، دعوئوں کی حد تک توٹھیک ہے، لیکن عملی طور پر ایسے مرحلے پر جب کہ حکومت مستحکم ہو ،ناقابل عمل ہے ،اگرچہ مریم نواز کافی عقابی بن گئی ہیں اور لندن میں مقیم اپنے والد کی ہدایت پر ضرورت سے زیادہ آگے چلی گئی ہیں، اینٹی اسٹیبلشمنٹ شخصیات کے تسکین قلب کے لیے تو اچھا ہوگا، لیکن مسلم لیگ( ن ) کے اندر خدشات پیدا ہو رہے ہیں،جہاں تک بلاول بھٹو زرداری کا تعلق ہے تو ان کا جوش خطابت اور ولولہ قابل قدر ہے، لیکن آخری فیصلہ ان کے والد آصف علی زرداری ہی کریں گے اور وہ کبھی اپنی جماعت کو استعفوں کی آگ میں نہیں جھونک گے۔
اس وقت ملک میں سیاسی افراتفری اور قیاس آرائیوں کا جھکڑ چل رہا ہے ،حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے لتے لے رہی ہیں،سیاست دشمنی اور محاذآرائی میں تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ملک کی بہتری کے لیے اس صورت حال سے نکلنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چاہیے کہ وہ بگڑتی صورت حال کا ادراک کریں اور اپنے اپنے مفادات کا کوئی مناسب اور قابل قبول میکنزم بنائیں، کیونکہ جلائوگھیرائواور
ایک دوسرے کو ختم کرنے اور دیوار سے لگانے کی سیاست ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے۔سیاسی جماعتوں کی قیادت جمہوری اصولوں اور عوامی امنگوں کو اولیت دیں ،نہ کہ اپنے جماعتی، گروہی اور ذاتی مفادات کو سامنے رکھ کر ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلاتے رہیں۔ عوام مایوسی اور حیرانی کے عالم میں اپنے منتخب نمایندوں کے درمیان جاری محاذآرائی کو دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ذاتیات کی بجائے جمہوریت کو سامنے رکھنا چاہیے ،کیونکہ ان کی غلطیاں ہی جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹنے کی بڑی وجہ بنتی رہی ہیں۔ اس لیے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے حال اور مستقبل کے لیے درست راستے کا انتخاب کرنا ہی سیاسی قوتوں کی بنیادی ذمے داری ہے۔