بلوچستان میں حالیہ قتلِ عام 107

عہد کریں نیے سال سے مطالعہ کی عادت اپنائیں گے

عہد کریں نیے سال سے مطالعہ کی عادت اپنائیں گے

تحریر۔حمادرضا
ہم اپنی زندگی میں مختلف قسم کے لوگوں سے ملتے ہیں جن میں سے کچھ کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ہم ایسے لوگوں کے ساتھ باتیں کرتے ہیں ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور اپنے ذہن میں ایسے لوگوں کی ان کی قابلیت کے حساب سے ایک سماجی حثیت قائم کر لیتے ہیں ہمارا اپنی روزمرہ زندگی کے دوران ایسے افراد کے ساتھ بھی پالا پڑتا ہے جن کے پاس ڈگریوں کے انبار ہوتے ہیں ہم ایکدم ان کی علمی قابلیت سے متاثر ہوۓ بغیر نہیں رہ پاتے لیکن جیسے ہی ہم ایسے افراد سے گفتگو کرتے ہیں تو ہمیں سخت مایوسی ہوتی ہے پھر ہم اکثر شکایت کرتے نظر آتے ہیں

کہ فلاں صاحب اتنے زیادہ پڑھے لکھے ہیں لیکن ان کی پرسنلیٹی اور بول چال سے تو لگتا ہی نہیں کہ وہ اتنے ہائ کوالیفائیڈ ہیں اس کی اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم کاغذ کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے جسے ڈگری کا نام دیا جاتا ہے اپنی ساری تگ و دو کرتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں کاغذی کامیابی تو حاصل ہو جاتی ہے لیکن ہم علم سے خاصے دور اور پیچھے رہ جاتے ہیں آج اہلِ مغرب دوسری اقوام کی نسبت دو قدم آگے کیوں نظر آتے ہیں

نت نئ ایجادات مغرب میں ہی کیوں وقوع پذیر ہوتی ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا مطالعہ کے ساتھ عشق ہے یورپ میں آج بھی لوگوں کے ہاتھ میں دورانِ سفر کتابیں ہی نظر آتی ہیں مغرب میں تو اکثریہ نظارہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک اینگلر اپنا فشنگ راڈ پانی میں ڈالے بیٹھا ہے اور مچھلی کے کانٹے میں پھنسنے تک خود آرام سے کسی کتاب کے مطالعہ میں مشغول ہے پاکستان میں اگر کتب بینی کی بات کی جاۓ تو ملک میں پچھتر سے اسی فیصد لوگوں نے اپنی نصابی کتابوں کے علاوہ کبھی کسی اور کتاب کا مطالعہ نہیں کیا ہوتا شکسپئیر کے اس قول کے مصداق کہ دنیا ایک سٹیج ہے

جس پے ہر فرد اپنا کردار ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے ظاہری بات ہے عقلمند وہ آدمی کہلاۓ گا جو یہ جاننے کی کوشش کرے گا کہ ہمارے سے پہلے اس سٹیج پر لوگ کیا کردار ادا کر گیے ہیں اور اب ہمیں کیا کردار ادا کرنا چاہیے جو کہ مطالعہ کی عادت کے بغیر بلکل ناممکن ہے ہم جب بھی کوئ فلم یا ڈرامہ دیکھتے ہیں تو کہانی کو ہمیشہ شروع سے دیکھنا پسند کرتے ہیں ہم کبھی بھی کہانی درمیان سے دیکھنا پسند نہیں کرتے اگر ہم کہانی درمیان سے دیکھنا شروع کر بھی دیں تو یہ کبھی سمجھ نا پائیں گے کہ کہانی کس سمت چل رہی ہے ایسا ہی حال ان لوگوں کا بھی ہے

جو اپنی زندگی غیر مطالعاتی طور پر بسر کرتے چلے جاتے ہیں وہ زندگی کی کہانی درمیان سے دیکھنا شروع کرتے ہیں اور یہ جان ہی نہیں پاتے کہ ان سے پہلے لوگ کس طرح کے تھے اور کیا کیا کارہاۓ نمایاں سر انجام دے گیے ہیں میری ذاتی ناقص راۓ کے مطابق کسی بھی فرد کو سال بھر میں کم سے کم پندرہ سے اٹھارہ کتابوں کا مطالعہ تو ضرور کرنا چاہیے مطالعے کی عادت عقلِ سلیم پر پڑے قفلوں کو کھولتی ہے اور فرد کو نت نیے جہانوں سے آشکار کرتی ہے جن سے پہلے وہ نا آشنا تھا نیے سال میں اپنی ترجیحات میں مطالعہ کی عادت کو بھی ضرور شامل کریں یقین جانیے آپ اپنی زندگی میں واضع تبدیلی محسوس کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں