’’ایک اور عہد و پیما کا پیکر آسودہ خاک ‘‘ 105

’’ٹوٹتا اپوزیشن اتحاد ‘‘

’’ٹوٹتا اپوزیشن اتحاد ‘‘

ملکی سیاست ایک بار پھر پلٹا کھاتی دکھائی دے رہی ہے اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان آئے روز آفٹر شاک جھٹکوں کا شکار ہو رہے ہیں اور وہ (مولانا فضل الرحمان) اپوزیشن اتحاد میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جو قومی و صوبائی ایوانوں میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت سے بہت زیادہ ارکان اسمبلی رکھتی ہیں سے نالاں دکھائی دے رہے ہیں، پہلے ان کے دست بازو مولانا شیرانی نے درجنوں دیرینہ ساتھیوں جو پارٹی میں نمایاں مقام رکھتے تھے کے ساتھ جمعیت علماء اسلام پاکستان کو جے یو آئی سے الگ کر لیا ہے

اور انہوں نے مولانا فضل الرحمان سے نا صرف طویل سیاسی رفاقت توڑ دی ہے بلکہ ان کے بارے اس قدر جارحانہ رویہ اپنایا ہے جیسے وہ ایک دوسرے کے عرصہ سے حریف ہوں۔ اس سے مولانا فضل الرحمان کو نا صرف ذہنی صدمہ پہنچا ہے بلکہ اپوزیشن اتحاد میں بھی وہ کمزور ہو گئے ہیں، پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے اپنی پارٹی کے ارکان اسمبلی کے استعفوں کو میاں نواز شریف کی وطن واپسی سے مشروط کر کے آگ کی طرح حکومت پر برستی اپوزیشن کو برف میں لگا دیا ہے اور پیپلز پارٹی نے ضمنی اور سینیٹ الیکشن پراسیس میں شمولیت کا اعلان کر کے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بھی اپنی جماعت کا اکٹھ کر کے سوچنے پر مجبورکر دیا ہے۔
(ن) لیگ کے ذرائع کہتے ہیں

کہ مسلم لیگ (ن) بھی پیپلز پارٹی کی تقلید کرتے ہوئے ضمنی اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کر چکی ہے، چونکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ارکان اسمبلی کی اکثریت نے قومی و صوبائی اسمبلی کے ایوانوں سے استعفے دینے کی مخالفت کی اور انہوں نے پارٹی قیادت کو بھی اس بارے واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ استعفے نہیں دیں گے، جس پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے نہ چاہتے ہوئے بھی فیصلہ کیا ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلی کے ایوانوں کو کھلا نہ چھوڑا جائے اور ضمنی و سینیٹ الیکشن میں حصہ لیا جائے جس کا مسلم لیگ (ن) جلد اعلان بھی کر دے گی،

جس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے کپتان اور اس کی کابینہ نے قومی و صوبائی اسمبلیز کے سپیکرز کو واضح کہہ دیا ہے کہ اپوزیشن کے جن ارکان اسمبلی کے استعفے موصول ہوں وہ قبول کر لئے جائیں، کپتان نے تو بڑے اعتماد سے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اپوزیشن کی اکثریت فارورڈ بلاک بنا رہی ہے اور اپوزیشن کے جو اکا دکا ارکان اسمبلی استعفے دیں گے ان نشستوں پر ضمنی الیکشن کروا دیا جائے گا، تو ملکی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ضمنی انتخابات میں ہمیشہ اکثریت برسر اقتدار پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوتے ہیں تو اس صورت میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمان کی جماعت جس کے ایوانوں میں ارکان اسمبلی پہلے ہی محدود ہیں اور رہی سہی کسر مولانا شیرانی نے ان سے بغاوت کر کے نکال دی ہے کے پیچھے لگ کر گھاٹے کا سودا نہیں کریں گے، اس طرح مولانا فضل الرحمان مستقبل قریب کی سیاست میں کئی امتحانوں سے گزریں گے

گو مولانا فضل الرحمان کی سیاست 40 سال کے عرصہ پر محیط ہے وہ پانچ بار ملک کے بڑے ایوان (قومی اسمبلی) کے رکن منتخب ہوئے اور انہوں نے اپنی سیاست کا زیادہ وقت برسر اقتدار جماعت کا اتحادی بن کر گزارا اور ملکی سیاست میں کئی معرکے بھی انجام دیئے، پیپلز پارٹی، (ن) لیگ اور مولانا شیرانی کے رویہ نے مولانا فضل الرحمان کو سوچ میں ڈال دیا ہے تاہم مولانا فضل الرحمان پرانے کھلاڑی ہیں، وہ اس بحران سے نکلنے کیلئے آخری حد تک جدوجہد کریں گے۔ ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت نے بھی ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے،

اور اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ ان کی جماعت سینیٹ انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی تقلید کرتے ہوئے حصہ لے گی اور سینیٹ کے ایوان میں اپنے تین ارکان ممبر بنوانے کیلئے بھرپور جدوجہد کرے گی۔دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے تا حیات پارٹی قائد میاں نواز شریف جو کہ پہلے ہی سزا یافتہ ہیں کے لئے بھی آئندہ ماہ پریشانی میں اضافہ ہونے والا ہے، کیونکہ ان کا پاسپورٹ 16 فروری کو ختم ہو رہا ہے،

پاسپورٹ ختم ہونے کی صورت میں ان کا پاکستان سے بیرون ملک جانے کیلئے لگایا جانے والا ویزا بھی ختم ہو جائے گا اور وہ بیرون ملک کے ہی کے ہو کر رہ جائیں گے، ان کی پاکستانی شہریت پر بھی نشان لگ جائے گا اور وہ کسی دیگر ملک سفر کرنے کی سہولت سے بھی محروم ہو جائیں گے؟ بصورت دیگر انہیں پاسپورٹ تجدید کرانا ہو گا جس کیلئے انہیں وطن آنا پڑے گا، مگر وہ تو عدالت اور اداروں کو کیسز اور ریفرنسز میں مطلوب ہیں، وطن واپس آنے کی صورت میں ان کا واپس جانا مشکل نہیں نا ممکن ہو گا۔ ان حالات میں مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف مستقبل قریب میں شدید دبائو کا شکار ہونگے

اس طرح احتجاج احتجاج کا راگ الاپتی اپوزیشن کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پی ڈی ایم کی بڑی اتحاد جماعت مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف کیلئے مستقبل قریب میں مزید پریشانیاں بڑھیں گی، پیپلز پارٹی کی قیادت چونکہ اپوزیشن اتحاد سے اپنی راہیں جدا کرنے کا عندیہ دے چکی ہے، وہ آنے والے وقت کے سیاسی ماحول کو خوب انجوائے کرے گی اور ماضی کی طرح حالات کا خوب فائدہ اٹھائے گی۔ تا ہم سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی،

ہو سکتا ہے کہ مولانا روٹھوں کو منا لیں اور حکومت کیخلاف لانگ مارچ کرنے میں کامیاب ہو پائیں۔ لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے قیادت ضمنی اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کی صورت میں حکومت کی رٹ کو تسلیم کر لیں گی، کیونکہ وہ اس حکومت کے دور میں الیکشن میں حصہ لیں گی جسے وہ سلیکٹڈ اور دھاندلی زدہ کہتی رہی ہیں۔ اس طرح آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ کون سا سیاست دان اڑ کر کس منڈیر پر بیٹھتا ہے یہ بھی آئندہ چند روز میں واضح ہو جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں