وفاقی دارالخلافہ یا عوامی مقتل ۔۔۔۔؟ 197

وفاقی دارالخلافہ یا عوامی مقتل ۔۔۔۔؟

وفاقی دارالخلافہ یا عوامی مقتل ۔۔۔۔؟

آج کی بات شاہ باباحبیب عارف کیساتھ
نئے سال 22 سالہ جہدوجہد 22 سالہ نوجوان اور 22 گولیاں وفاقی درالخلافہ اسلام آباد میں( ATS ) کے ہاتھوں بے دردی سے 22 گولیاں مار کے شہید کئے جانے والا اسامہ ندیم ستی جو اپنی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ساتھ ساتھ روزگار بھی کرتا تھا اسامہ ستی کا ریاست کے ہاتھوں بے رحمانہ قتل پاکستان کے تمام طلبہ سمیت نوجوان نسل کا قتل ہے جسے نہ ہم کبھی ماضی کی طرح اب بھولینگے اور نہ ہی اس بارمعاف کرینگے مدینہ کی ریاست میں راتوں کو محنت مزدوری کرکے اپنے گھر والوں کے لیے رزقِ حلال کما کر لانے والے اس بے قصور طالب علم کے قتل کا کون زمہ دار ہے؟

انسانی جان کی حرمت جس طرح پچھلے ڈھائی سال میں پامال ہوئی ہے، اسکی مثال نہیں ملتی۔اس سے زیادہ بے حس حکومت پاکستان میں آج تک نہیں دیکھی ظلم و ستم کی بات ہو تو بطور مثال چنگیزخان اور ہلاکو خان کا نام لیا جاتا ہے یہ پرانے دور کی مثال ہےلیکن اب تو جدید دور ہے تو مثال بھی جدید ہونی چاہیے آج کے دور میں ظلم و ستم، تشدد و اذیت کی بات ہو تو پاکستان پولیس کا نام ذہن میں آتا ہے پچھلے چند سالوں میں پاکستان پولیس نے تقریبا 2117 پولیس مقابلے کیے ہیں جن میں ایک اندازے کے مطابق 3345 لوگ ہلاک اور 173 زخمی ہوئے ناجائزایف آئی آر تو روزانہ سینکڑوں میں ہوتی ہیں ناجائز حراست میں لیے جانے والے لوگ بھی سینکڑوں میں ہیں حراست کے دوران بہیمانہ تشدد عام سی بات ہے

پولیس کی تشدد سہنے والے لوگ اپنی بقیہ زندگی عام انداز سے گزارنے کے قابل نہیں رہتے کیونکہ غیر انسانی تشدد کی وجہ سے وہ کسی نہ کسی پیچیدہ مسئلے میں مبتلا ہو جاتے ہیں عوام کی سرعام بےعزتی کرنا اور ننگی اور فحش گالیاں دینا پاکستان پولیس اپنا اولین فریضہ سمجھتی ہے اگر یہ سوچیں کہ شیطان کیسا ہوگا تو پاکستان پولیس کے”جوان”آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر شیطان اور پاکستان پولیس ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں پون صدی گزر گئی، کئی نسلیں گزر گئیں پاکستان کے عوام کو پولیس کے ظلم و تشدد سے نجات نہ مل سکی آئیے ہم سب مل کر اس ظالمانہ نظام کے خلاف جدو جہد کریں ورنہ ہماری ملکی تاریخ تو اس طرح کے بے شمار سانحات سے بھری پڑی ہے گنوانے بیٹھ گیا

تو یہ سانحہ بھی دیگر کی طرح بھول جائینگے کیونکہ ہم بے وقوف عوام زیادہ سے زیادہ تین یا چار دن یہ نیوز سوشل میڈیا پر بہت زور وشور سے دکھاتے رہینگے تھوڑی سی مذمتی بیانات دیں گے تین چار دن بعد اس سے بھی بڑی خبر آئے گی اور یہ واقع دب کے دیگر کی طرح رہ جائے گا خدا کے لیے خواب غفلت سے بیدار ہوجاو کچھ تو کروں ایک مٹھی بن جاؤ اور اس کے لیے ایک آواز بلند کروں اگر ہم اب بھی ایک مٹھی نہیں بنے تو کل اپنے سینے اس طرح کے دلخراش سانحوں کے لیے تیار اور کھلا چھوڑ دیں کیونکہ یہ ہم سب کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے بھائی ٹھیک ہے

کہ اسامہ ندیم ستی کی گاڑی کے شیشے کالے تھے اس کو ناکے پہ روکا گیا وہ نہیں رکا تو اسے بائیس گولیاں مار دی گئیں یہ خبر صبح سے سوشل میڈیا پر ان بائیس گولیوں کی طرح جان لیوا گردش میں ہے مطلب گاڑی کے شیشے کالے ہونا اور ناکے پہ نہ رکنا اتنا بڑا جرم تو نہیں تھا کہ اس کے لیے بائیس گولیاں مار دی گئی کیا یہ بائیس گولیاں ٹائر پہ فائر کرکے گاڈی نہیں روکا جاسکتا تھا۔۔۔۔۔؟ لیکن اسامہ کے والد کا کہنا یہ ہے کہ ‏میرے بیٹے نے مجھے بتایا تھا کہ اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں سے کچھ تلخ کلامی ہوئی تھی اور انہوں نے دہمکایا تھا کہ ہم تمہیں مزہ چکھائیں گے

اورپھر شہباز گل کا بیان حسبِ توقع آچکا ہے کہ مجرموں کو عبرتناک سزا دی جائے گی ایف آئی آر کٹ چکی ہے. پولیس والوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ سخت ترین پرچہ کٹوا دیا ہے پانچوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے. پانچوں پولیس والوں پہ قتل کا یعنی تین سو دو کا پرچہ کروا دیا ہے ساتھ میں دہشت گردی کا بھی کیس ڈالا گیا ہے. یہ ہماری پولیس نے ظلم کیا ہے عرض یہ ہے کہ پناہ گاہوں کی تصاویر، کرنٹ اکاؤنٹ کی ماہانہ بہتری اور اپوزیشن پہ جگتیں ساری ایک طرف دھری کی دھری رہ جاتی ہیں جب ایک بے گناہ یوں مارا جاتا ہے پولیس کی دہشتگردی کا نہ تو یہ پہلا واقعہ ہے

اور نہ ہی آخری صاف بات یہ ہے کہ قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچا دیا جائے گا. اور انصاف ہو کر رہے گا وغیرہ پہ رتی برابر بھی اب کسی کو یقین نہیں اگر ان پولیس والوں کو پھانسی نہ دی گئی تو کوئی فرق نہیں پڑنے والا. عوام نے آج تک نہیں دیکھا کہ کسی پولیس والے کو اس قسم کے کیس میں پھانسی کی سزا ملی ہو. یہ اپنے پیٹی بھائیوں پہ کبھی بھی آنچ نہیں آنے دیں گے. پولیس اور ریاست جانتی ہے کہ یہ پاکستانی عوام حسب روایت کچھ دن شور مچا کر بیٹھ جائیں گے جسطرح ہم ایس ایس پی طاہرداوڑ مولاناسمیع الحق سانحہ ساہیوال وغیرہ پر خاموش بیٹھ گئے ہیں

بلکہ بھول گئے ہیں. یہاں پہ سانحہ ماڈل ٹاؤن، مجید اچکزئی اور راؤ انور کا تو ذکر ہی نہیں کر رہا کیونکہ انہی کا نظام بدلنے کے لیے ہی تو پاکستان کی عوام نے تبدیلی کے چکر میں اکر تحریکِ انصاف کی حمایت کی تھی لیکن یاد رکھنا کہ اسامہ ستی کے سینے پر بائیس چھید عمران خان تیری بائیس سالہ جدوجہد پر سوالیہ نشان ہے اور اخرمیں اگر مجھے حق سچ کہنے پر غداری کا لقب دینا چاہتے ہو تو پھر برملا میری ایک اخری بات یہ بھی سن لیں جس کی تاریخ بھی گواہی دے گی کہ ‏عوام کی جان و مال کو اتنا خطرہ دہشتگردوں سے نہیں ہے جتنا اس حکومت اور وردی میں موجود اپنے محافظوں سے ہے۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں