بلوچستان میں حالیہ قتلِ عام 90

بلوچستان میں حالیہ قتلِ عام

بلوچستان میں حالیہ قتلِ عام

تحریر۔حمادرضا
کہا جاتا ہے کہ لکھاری بہت حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے وہ معاشرے میں ہونے والے اتار چڑھاؤ کو کچھ الگ انداز میں دیکھتا اور محسوس کرتا ہے ایک دفعہ کسی دانشور سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ ایک عام آدمی اور لکھنے والے میں کیا فرق ہوتا ہے؟ تو دانشور نے جواب دیا کے ایک لکھنے والا دنیا کو ایسے دیکھتا ہے جس طرح عام آدمی کسی عورت کو یہی وجہ ہے کہ جب بھی معاشرے میں کوئ اندوہناک واقعہ پیش آتا ہے تو سب سے پہلے قلم قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی اس کی مذمت کرنے کے لیے میدان میں اترتے ہیں اسی طرح کا ایک واقعہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب بلوچستان میں پیش آیا جس میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے غریب مزدوروں کے خون سے ہولی کھیلی گئ اور ہم سب جانتے ہیں

کہ یہ کوئ پہلا واقعہ نہیں جس میں اس برادری کو ٹارگٹ کا نشانہ بنایا گیا ہو اب تو قبرستان کے قبرستان آباد ہو چکے ہیں جن میں پڑے مردوں کی روحیں آج بھی سوال اٹھاتی نظر آتی ہیں کہ ہمیں کس جرم کی پاداش میں موت کی نیند سلایا گیا اس قسم کے واقعات کے پیچھے چاہے کوئ بھی ملوث ہو اسے آپ اندرونی ہاتھ کا نام دیں یا بیرونی ہاتھ کا اگر ایک ہی طرز کے واقعات پے در پے رونما ہوتے رہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکومتِ وقت عوام کو تحفظ دینے میں پوری طرح ناکام ہو چکی ہے بلوچستان میں دہشت گردی وہ چبھتا ہوا کانٹا ہے جو اب ناسور کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے بد قسمتی سے اس قسم کے واقعات میں ملوث ملزمان کی پہلے تو شناخت ہی نہیں ہو پاتی اگر شناخت کر بھی لی جاۓ تو جرم ثابت کرنا انتہائ مشکل ہو جاتا ہے

کیوں کہ اس قسم کے واقعات میں قاتل کا ذاتی عناد بلکل شامل نہیں ہوتا وہ تو صرف ایک کٹھ پتلی کا کردار ادا کر کے چلتا بنتا ہے اور ہم صرف لکیر پیٹتے رہ جاتے ہیں دو ہزار سات میں بھی جب مختلف دہشت گرد گروپ طالبان کے پرچم تلے جمع ہو رہے تھے تو ہم چپ چاپ بیٹھ کر ان کی یہ سرکس دیکھتے رہے سوات میں انھوں نے اپنا ایف ایم ریڈیو تک چلاۓ رکھا ہم پے جوں تک نا رینگی جب پانی ہمارے سر تک پہنچ گیا تب بھی ہم گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی تسبیح پڑھتے رہے اسی طرح بلوچستان میں بی ایل اے اور دیگر متحرک گروپوں نے ایک عرصے سے بلوچستان کو یرغمال بنا رکھا ہے لیکن آج بھی ہم ا نہیں ناراض بلوچ ہی قرار دیتے ہیں اور ان کی قومی دھارے میں شامل ہونے کی امید لگاۓ بیٹھے ہیں

یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ان سب کے پیچھے بھارت کا بھیانک اور مکروہ چہرہ ہے جو کبھی بلوچوں کو آزادی کے لیے اکسا کر اور کبھی فرقہ وارانہ فسادات کروا کر اپنے گھناؤنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ نے ایک خاص پالیسی مرتب کی وہ پالیسی یہ تھی کہ دہشت گردوں کے ہاتھ اپنے گریبان تک پہنچنے ہی نا دیے جائیں ان کا پوری دنیا میں پیچھا کر کے ان کا خاتمہ کر دیا جاۓ انھوں نے تمام مطلوبہ افراد کی ایک لسٹ تیار کی اور پھر سوڈان یمن پاکستان افغانستان عراق شام میں چن چن کر ان کو نشانہ بنایا گیا حتیٰ کہ القاعدہ جیسے گروپ کو اپنی نئ قیادت چننے کے لالے پڑ گیے جبکہ ہمارے غدارانِ وطن بھارتی ایئر پورٹوں پے یہ تک کہتے رہے

کے ہمیں کتا کہلوانا منظور ہے لیکن ہمیں پاکستانی نا پکارا جاۓ جس سے آپ ان کی پاکستان سے نفرت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں اور انہیں کوئ پوچھنے والا بھی نہیں جب تک ان ملک دشمن عناصر کا ان کے گھر تک پیچھا نہیں کیا جاۓ گا ہماری اس وبال سے جان چھوٹنے والی نہیں اس سے برے حالات اور کیا ہو سکتے ہیں کہ بلوچستان اپنے ناقص امن و امان کی صورتِ حال کی وجہ سے دوسرے صوبوں سے یکسر کٹ کر رہ گیا ہے لوگ آج مری ناران کاغان تو جانا چاہتے ہیں لیکن کوئ بھی زیارت کا رخ نہیں کرتا اس حقیقت سے کوئ نظریں نہیں چرا سکتا کہ بلوچستان نا صرف ہزارہ برادری بلکہ ملک باسیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے نو گو ایریا بن کر رہ گیا ہے جہاں لوگ جاتے وقت کم از کم ایک بار سوچتے ضرور ہیں حکومت کو مذمتی بیانات کی بجاۓ اس کا کوئ دیر پا اور مستقل حل سوچنا ہو گا قیمتی جانوں کے نقصان کی بھرپائ ہم کب تک معاوضہ دے دے کر کرتے رہیں گے اگر دہشت گردی کے ان واقعات کا جڑ سے تدارک نا کیا گیا تو ڈر ہے کے کہیں بلوچستان ایک گھوسٹ ٹاؤن نہ بن کر رہ جاۓ فقیہ حیدر نے کیا دل سوز انداز میں اس کی عکاسی کی ہے
میں کوئٹہ کی طرف جاتے ڈر رہا ہوں فقیہ
وہ اس لیے کہ” ہزارہ برادری ”ہے مری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں