میر ؔسے معظمہؔ تک کاسفر 206

”روشنیوں کے شہر کا ایک روشن ستارا”

”روشنیوں کے شہر کا ایک روشن ستارا”

پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی تعلیمی,صنعتی، تجارتی مواصلاتی واقتصادی کا مرکز ہے۔ کراچی دنیا کا چھٹا بڑا شہر ہے۔ کراچی صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔کراچی شہر دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کے شمالی ساحل پر واقع ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ بھی کراچی میں قائم ہے۔کراچی قیام پاکستان سے لیکر 1960 تک پاکستان کا دارالحکومت بھی رہا ہے۔اگر تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کراچی کی جگہ یہ واقعہ قدیم ماہ گیروں کی بستی کا نام مائی کولاچی تھا جو بعد میں بگڑکر کراچی بن گیا۔
اگر ادب کی بات کی جائے اور کراچی کا ذکر نہ ہو تو ادب کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ذوق ادب اہلیانِ کراچی کی پہچان ہے،کراچی محبت کا شہر ہے ،اہل قلم کا شہر کراچی ادب کی ماں ہے کراچی سے ادب کی خوشبو آتی ہے۔درحقیقت دیکھاجائے تو کراچی کا دوسرا نام ادب ہے۔کراچی سے تعلق رکھنے والے ادباء کی فہرست تو طویل ہے مگرپھر ان کا نام لیے بغیر یہ تحریر میں ادنی سالکھاری نامکمل سمجھتا ہوں ان ادباء کی فہرست جنہوں نے ادب کو زندہ رکھا اور حقیقی معنوں میں ادب کا حق ادا کیا۔
پروفیسر احمد علی،ابوالخیر کشفی،عارف شفیق،ذی شان ساحل،افسر ماہ پوری،خالد معین،ابو سلمان شاہجہان پوری،رضی اختر شوق،مرزا حیدر عباس،فراست رضوی،عزیز احسن،جلی امروہوی، احمد سہیل،انور مقصود، اشفاق حسین،اسلم فرخی،دلاور فگار،فرحت اشتیاق ،فرمان فتح پوری،فاطمہ ثریا بجیا،فہمیدہ ریاض،غلام مصطفٰی خان حکیم محمد سعید،حمید ہارون،محمد حسن عسکری،حسینہ معین،ابن انشائ،ابن صفی،افتخار عارف، اشتیاق حسین قریشی،جمیل جالبی،جمیل الدین عالی،جون ایلیا،جوش ملیح آبادی،خلیق ابراہیم خلیق،ڈاکٹر منظوراحمد،مولوی عبدالحق،مشتاق احمد یوسفی،مصطفٰی زیدی،نسیم مروہوی،عبید اللہ علیم،قمر جلالوی،رئیس امروہوی،صادقین،شائستہ اکرام اللہ،شان الحق حقی،شوکت صدیقی،

سبط حسن،سید قاسم محمود،تابش دہلوی،تنویر پھول،زاہدہ حنا،پروفیسر کرار حسین،عقیل عباس جعفری،ابوالفضل صدیقی،صبا اکبرآبادی ،حامد حسن قادری،پروفیسر منظور حسین شور،محمد خالد اختر،شمش العلماء ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ،پروفیسر ڈاکٹر محمد ایوب قادری،ملا واحدی،ڈاکٹر شوکت سبزواری،پروفیسر ممتاز حسین،مشفق خواجہ، ابو الجلال ندوی،نصیر سومرو،صابر ظفر،مجنوں گورکھپوری،علامہ رشید ترابی،ثروت حسین، ڈاکٹر احسن فاروقی،اسد محمد خان،اطہر نفیس بہزاد لکھنوی،لیاقت علی عاصم،خالد علیگ اعجاز رحمانی ،زیب غوری،غوث متھراوی ، اختر جونا گڑھی،علی احمد،امیر حسین چمن،سلطان جمیل نسیم،سرشار صدیقی ،فصیح الدین قریشی ا ورالیاس سیتاپوری سمیت ان گنت لوگ ہیں

جنہوں نے ادب کے پودے لگائے جن کی خوشبوآج ہم تک پہنچ رہی ہے ۔۔ان میں ایک نام ایسا بھی سرفہرست آتا ،جن کو ادب انسانیت میں ایک نمایا مقام حاصل تھاہے اور ہزاروں سال رہے گا اوراس عظیم انسان کو دنیا ـــــعبدالستارایدھی کے نام سے جانتی ہے،روشنیوں کے شہر سے تعلق رکھنے والے ان روشن ستاروں میں ایک ایسابھی روشن ستارہ ہے ،جس کانام اروری عمران صاحبہ ہے،جس نے بہت ہی کم عمر میں وہ مقام حاصل کرلیا،جسے کے حصول کے کیے لوگوں کی زندگی گزرجاتی ہیں مگر اس مقام تک بہت ہی کم لوگ پہنچ پاتے ہیں اوریہ مقام ان کا مقدربنتا ہے۔اروی عمران صاحبہ ایک عظیم لکھاری ہیں ،اس دورمیں جن کی قلم کی تاثیر سے میں اتنا متاثر ہوا کہ مجھ جیسا ایک ادنی سالکھاری لکھنے پرمجبور ہوگیا۔اروی عمران صاحبہ روشنیوں کے شہر کادرحقیقت ایک ایسا روشن ستارہ ہے۔ جن کی کتاب ”امیدسحر”سے آپ باخوبی اندازی لگاسکتے ہیں۔
آپ اگر ان کی کتاب”امیدسحر”کامطالعہ کریں،آپ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجائے گی،اگر آپ ناکامی کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔تو آپ کو” امیدسحر”کامطالعہ کرنا چاہیے۔اگر آپ ناامیدی کی تاریکی میں کہیں گم ہوتے ہوتے جارہے ہیں تو آپ کو” امید سحر” کے صفحات پہ انمول الفاظ پر نظرثانی کرنا ہوگی۔میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آپ کی زندگی میں امید کی روشنی جگمگانے لگے گی۔آپ غموں کوپا ؤں تلے روندتے ہوئے خوشیاں کو اپنا مقدر بنا لیں گے۔
اگر آپ معاشرے میں تنہائی کا شکارہیں،تو پھر”امیدسحر”کواپنے زیرمطالعہ لائیں پھردیکھیں تنہائی آپ سے کوسوں دور بھاگے گی،اوردوستوں کا ہجوم آپ کے ا ردگرد خوشیوں کاسماں باندھے گا،اگرآپ ھارجیسے لفظ سے گہرہ ناطہ جوڑ چکے ہیں،اورجیت آپ کو اپنے پاس بھٹکنے نہیں دیتی،توآپ ”امیدسحر” پرنگاہ تو ڈالیں اور پھردیکھیں توسہی آپ، کامیابی آپ کے قدم چومے گی، اور ناکامی منہ چھپائے بھاگ نکلے گی۔اگرآپ کی دعائیں قبول نہیں ہوپارہی تو آپ ”امیدسحر”کی ورق گردانی تو کریں پھر دیکھیں اپنی دعامیں تاثیر رب کریم آپ پہ کتنا کرم کرتاہے۔”امید سحر ”کاخلاصہ آپ سب دوستوں کی نظر میں.
ناامیدی سے امیدکی جانب گامزن کرنے والی کتاب،ناکامی سے کامیابی کاراستہ دکھانے والی انمول کتاب، غم سے جداکرکے خوشی سے ناطہ جوڑنے والی کتاب۔ مایوسی جیسی ناکارہ اور فرسودہ سوچ سے نکال کرخداواحدینت سے جوڑنے والی کتاب،اس کتاب کو لکھتے وقت اروی عمران صاحبہ نے قرآن پاک جیسی عظیم کتاب،حدیث مبارکہ کامطالعہ کیاہے شرک سے دوری اور خدائے برحق کے جانب گامزن کرنے کی جستجو کی ہے۔اگر میں مزید اس کتاب پرلکھتارہوں تو کئی صفحات درکارہونگے۔ اروی عمران صاحبہ کی کتاب ”امیدسحر” ایک حیرت انگیز معجزہ ہے۔کم عمری میں اتنا پختہ تخیل لیکرلکھنا ہرلکھاری کیلیے مکمن نہیں۔اگرآپ حقیقت کے متلاشی ہیں،اوررب کائنات سے ملنے کے طلبگارہیں تو آپ اس کتاب کا مطالعہ لازم کریں۔آخرمیں میری نیک تمنائیں اروی عمران صاحبہ کے لیے ہیں۔خداکے آپ عزت وعافیت سے ہزاروں سال جئیں….!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں