’’احتجاج ہزارہ برادری اور حکومتی دلاسے‘‘
تحریر: اکرم عامر سرگودھا
ہزارہ قبیلے کے لوگ بہت سے سانحات سہہ چکے ہیں، اور ان کے ساتھ پیش آنے والے ہر واقعہ میں انہیں ٹارگٹ کر کے شہید کیا جاتا ہے، ہر بار ہزارہ قبیلے کے ارباب اختیار وقت کے حکمرانوں سے تحفظ مانگتے ہیں اور ہر سانحہ کے بعد وقت کا حکمران اس قبیلے کو تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کر کے ان کے جذبات کا حصہ بن کر انہیں چپ کراتا آیا ہے۔ جنوری 2013ء میں بلوچستان میں ہزارہ قبیلے کے ساتھ حالیہ واقعہ سے بڑا المناک واقعہ پیش آیا جس میں 86 افراد شہید ہوئے، ان کی لاشیں بے گور و کفن پڑی تھیں کہ اس وقت واقعہ پر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے سوال اٹھایا تھا کہ ریاست کہاں ہے؟ حکومت ملک میں دہشتگردی کو روکنے میں ناکام ہو چکی ہے؟ ہزارہ قبیلے کو تحفظ فراہم کیا جائے؟
اس وقت ہزارہ قبیلے کے شہداء نے نہ احتجاج کا راستہ اپنایا اور نہ ہی حکومت مخالف نعرہ بازی کی، نہ ہی اداروں کو ہدف تنقید بنایا، بلکہ شہداء کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر تدفین کی گئی، اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت نے ہزارہ قبیلے کو تحفظ کی یقین دہانی کرائی اور کہا تھا کہ اس المناک واقعہ میں اندرون ملک عناصر کے ساتھ بھارت کی ایجنسیاں ملوث ہیں، انہیں (شہداء کے ورثاء ) کو انصاف ضرور ملے گا۔ اس واقعہ کو 7 سال بیت گئے نہ تو کسی حکومت نے ہزارہ قبیلے کو تحفظ فراہم کیا اور نہ ہی تحفظ کیلئے کوئی عملی اقدام اٹھایا گیا، اس دوران ہزارہ قبیلے کے ساتھ کئی سانحہ وقوع پذیر ہوئے۔ 2021ء ایک بار پھر ہزارہ قبیلے کیلئے دکھوں کی نئی داستان لے کر آیا اور جنوری کے پہلے ہی ایام میں معدنیات کی کانوں میں کام کرنے والے ہزارہ برادری کے 11 کان کنوں کو بے دردی سے ابدی نیند سلا کر شہید کر دیا گیا۔ یہ بھی مستونگ واقعہ کی طرح المناک اور دردناک تھا
۔اب کی بارورثاء اور ہزارہ برادری نے شدید رد عمل کا اظہار کیا اور احتجاج کا راستہ اپنایا۔توجہ طلب امر ہے کہ ملک میں ہر طرف احتجاج۔۔ ۔احتجاج ہو رہا ہے، اپوزیشن حکومت گرانے کیلئے کپتان کے خلاف احتجاج کر رہی ہے، چاروں صوبوں کا کلیریکل سٹاف مراعات اور الائونسز دینے، تنخواہوں میں اضافہ کیلئے سراپا احتجاج ہے، سندھ، پنجاب، بلوچستان، کے پی کے سے تعلق رکھنے والی بہبود آبادی کی ہزاروں لیڈی ورکرز، سپروائزرز ملازمت پر مستقل کرنے کیلئے احتجاج کر رہی ہیں، ینگ ڈاکٹر اپنے مطالبات منوانے کیلئے اسلام آباد میں دھرنے پہ دھرنا دے رہے ہیں، کنٹریکٹ پر کام کرنے والے پروفیسر، اساتذہ، محکمہ صحت، ایجوکیشن، محکمہ مال سمیت دیگر اداروں کے ملازمین آئے روز احتجاج کرتے ہوئے
مطالبہ کرتے نظر آ رہے ہیں کہ انہیں نوکریوں پر مستقل کیا جائے اور مراعات و سہولتیں دی جائیں، اس طرح عوام کا کوئی بھی مسئلہ ہو تو وہ احتجاج کا راستہ اپناتی ہے، احتجاج کرنا کوئی برا عمل نہیں، اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے، لیکن احتجاج پر امن ہونا چاہئے ، اس دوران نہ تو سرکاری املاک کو نقصان پہنچنا چاہئے اور نہ ہی ملک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو برا بھلا کہنا چاہئے کیونکہ یہ ادارے ہی ملک و قوم کی حفاظت کیلئے دن رات کوشاں ہیں اور ان اداروں کے جوان آئے روز ملک و قوم کیلئے قربانیاں دیتے نظر آتے ہیں، ان شہید ہونے والوں کے ورثاء نے تو کبھی ملک و قوم سے شکوہ نہیں کیا کیونکہ شہادت کا رتبہ مقدر والوں کو ملتا ہے، یہی جذبہ لے کر قوم کے جوان قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سروس جوائن کرتے ہیں، وطن اور قوم کی حفاظت کرتے شہید ہونے والوں کی لاشیں جب ان کے گھر پہنچتی ہیں تو شہداء کے ماں باپ، بہن بھائی، عزیز و اقارب، دوست احباب اس شہادت کو فخر محسوس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شہید نے یہ رتبہ پا کردھرتی ماں سے محبت اور اسکی حفاظت کا حق ادا کر دیا ہے۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی؟ بات ہو رہی تھی ہزارہ قبیلہ کے ساتھ پیش آنے والے حالیہ واقعہ کی، جس پر ہزارہ قبیلے نے لاشیں مین شاہراہ پر رکھ کر احتجاج کیا، کڑکتی سردی اور جاڑے کے موسم میں معصوم بچے، خواتین، بوڑھے اور جوان ہزاروں کی تعداد میں اس احتجاج میں شریک تھے، احتجاج کو منتشر کرانے کیلئے حکومت کے نمائندے وزیر اعلی بلوچستان جام میر کمال خان، وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید، وفاقی معاون خصوصی زلفی بخاری سمیت کئی اہم حکومتی شخصیات موقع پر پہنچے اور ہزارہ قبیلے کی واقعہ کے بعد تشکیل دی گئی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کیے جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے، اس دوران اپوزیشن جماعتوں کی قیادت بشمول بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز نے ورثاء کی دل جوئی کی اور انہیں دلاسہ دیا۔
اور وزیراعظم کو فوری مظاہرین کے پاس پہنچ کر ان کی داد رسی اور ہزارہ قبیلے کو تحفظ فراہم کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ شاید بلاول بھٹو بھول گئے تھے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2013ء میں ہونے والے سانحہ پر ہزارہ برادری کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا تھا اور (ن) لیگ کی مریم بی بی کو بھی یہ یاد نہ رہا 2015 ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے ہزارہ برادری کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا تھا لیکن ہر دو وعدے وفا نہ ہوئے، اور یہ سانحہ بھی رونما ہو گیا، بلوچستان کے ایک شہر سے شروع ہونے والا احتجاج کراچی، لاہور، اسلام آباد سمیت ملک بھر میں پھیل چکا تھا، ملک کی اہم شاہراہوں پر راستے بلاک اور شہروں میں نظام زندگی درہم برہم ہو چکا تھا، مظاہرین کی ایکشن کمیٹی بدستور مطالبہ کر رہی تھی
کہ وزیر اعظم عمران خان خود آئیں اور ان کی بات ومطالبات سنیں۔ مظاہرین سمیت قوم کی اکثریت توقع کر رہی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان شہداء کے ورثاء کی دلجوئی کیلئے کوئٹہ ضرور پہنچیں گے، مگر کپتان کے اس بیان کہ وہ کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے، لواحقین لاشیں دفنائیں تو وہ (عمران خان) لواحقین کی داد رسی کیلئے کوئٹہ جائیں گے پر پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر تبصرے شروع ہوگئے جو تادم تحریر جاری ہیں، ہر کوئی اپنا اپنا نقطہ نظراورفلسفہ بیان کر رہا ہے، عوام کی اکثریت اس بات پر نالاں نظر آ رہی ہے، اور اپنے رد عمل کا اظہار کر رہی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز، ترجمان پنجاب حکومت شہزاد گل و پی ٹی آئی کے کھلاڑی کپتان کا دفاع کر رہے تھے کہ حکومت کے نمائندہ وفد اور مظاہرین میں ایک بار پھر مذاکرات ہوئے جو کامیاب ہو گئے، ان مذاکرات میں حکومت اور مظاہرین میں کیا طے پایا یہ سوال ابھی باقی ہے؟ اور چھ روز سے کوئٹہ سمیت ملک بھر میں جاری دھرنے ختم ہو گئے، وزیر اعظم عمران خان شہداء کی تدفین کے چند گھنٹے بعد وعدے کے مطابق کوئٹہ پہنچے اور لواحقین سے اظہار تعزیت کے ساتھ ہزارہ قبیلے کو ہر طرح کے تحفظ کا یقین دلایا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہزارہ قبیلے کی سکیورٹی بڑھانے کی ہدایت کی اور اپنے بلیک میلنگ کے بیان کو پی ڈی ایم سے منسوب کر دیا۔ لیکن ملک بھر میں سیاسی و غیر سیاسی حلقوں میں یہ بات اب بھی زیر بحث ہے کہ کپتان تدفین سے پہلے کوئٹہ کیوں نہیں گئے؟، کوئی اسے توہم پرستی قرار دے رہا ہے؟ اور کوئی انجانا خوف؟ کچھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ احتجاج ہائی جیک ہوچکا ہے، کپتان اگر گئے تو مظاہرین ان کے استعفے کا مطالبہ کریں گے، سو ہر زبان طرح طرح کی بولیاں بول رہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے شہداء کے ورثاء اور ہزارہ قبیلے کے عمائدین کو ایک بار پھر ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا ہے اسی طرح جس طرح ماضی میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کے ذمہ داران نے ہزارہ قبیلے کو یقین دہانیاں کرائی تھیں، یہاں شاید عمران خان بھول گئے ہیں کہ انہوں نے 2013ء میں ہزارہ قبیلے کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ پر ریاست کی کارکردگی پر کئی سوال اٹھائے تھے،؟ جو اب اپوزیشن کپتان پر اٹھا رہی ہے۔
بقول ہزارہ قبیلے کی احتجاج کرنیوالی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داروں کے کہ ہزارہ قبیلے کے ساتھ سانحہ پر سانحہ ہوا۔ مگر ریاست کا کوئی ذمہ دار انہیں کسی دور میں تحفظ فراہم نہ کر سکا۔ تو کپتان جی مستونگ اور دہشتگردی کے دیگر واقعات کے بعد مچھ واقعہ نے پوری قوم کے دلوں کو زخمی کیا ہے،اپ نے ہزارہ قبیلے اور قوم کے زخم پر مرہم لگانا ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہزارہ برادری سمیت پوری قوم کو تحفظ دینے کیلئے ریاست کے ارباب اختیار سخت اقدامات اٹھائیں، دہشتگرد اور تخریب کار عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے؟ اگر ایسا نہ کیا جا سکا تو پھر سانحات ہوتے رہیں گے؟، ہزارہ برادری کی طرح قوم اپنے پیاروں کے جنازے اٹھاتی اور احتجاج کرتی رہے گی۔؟